نہ مرا مکاں ہی بدل گیا نہ ترا پتہ کوئی اور ہے
نہ مرا مکاں ہی بدل گیا نہ ترا پتہ کوئی اور ہے
مری راہ پھر بھی ہے مختلف ترا راستہ کوئی اور ہے
پس مرگ خاک ہوئے بدن وہ کفن میں ہوں کہ ہوں بے کفن
نہ مری لحد کوئی اور ہے نہ تری چتا کوئی اور ہے
وہ جو مہر بہر نکاح تھا وہ دلہن کا مجھ سے مزاح تھا
یہ تو گھر پہنچ کے پتہ چلا مری اہلیہ کوئی اور ہے
مری قاتلا مری لاش سے یہ بیان لینے کو آئی تھی
نہ دے ملزمہ کو سزا پولس مری قاتلا کوئی اور ہے
جو سجائی جاتی ہے رات کو وہ ہماری بزم خیال ہے
جو سڑک پہ ہوتا ہے رات دن وہ مشاعرہ کوئی اور ہے
کبھی میرؔ و داغؔ کی شاعری بھی معاملہ سے حسین تھی
مگر اب جو شعر میں ہوتا ہے وہ معاملہ کوئی اور ہے
تجھے کیا خبر کہ میں کس لیے تجھے دیکھتا ہوں کن انکھیوں سے
کہ براہ راست نظارے میں مجھے دیکھتا کوئی اور ہے
یہ جو تیتر اور چکور ہیں وہی پکڑیں ان کو جو چور ہیں
میں چکور اکور کا کیا کروں مری فاختہ کوئی اور ہے
مجھے ماں کا پیار نہیں ملا مگر اس کا باپ سے کیا گلہ
مری والدہ تو یہ کہتی ہے تری والدہ کوئی اور ہے