نہ مرنے کا دکھ
کوئی میرے لرزتے ہاتھ میں
کاغذ کا پرزہ اور قلم پکڑا رہا تھا
کبھی کچھ زیر لب ہی بڑبڑا کر
کوئی اثبات میں
آنکھوں کی اور ماتھے کی جنبش چاہتا تھا
کبھی دانتوں میں ہونٹوں کو دبا کر
کوئی رونے کی کوشش کر رہا تھا
کوئی تو چند لمحوں بعد اپنے
بال بکھرانے گریباں نوچنے کی فکر میں تھا
کوئی غمگیں چہرہ اور سیاہ ملبوس میں
بے حد حسیں معلوم دیتا تھا
میرے اجداد کے ناموں کو گنوا کر
کوئی مجھ سے تعلق جوڑتا تھا
سبھی نزدیک تھے میرے
ادھر بھائی بھتیجے تھے
ادھر بہنیں تھیں بھانجے تھے
پھر ان کے بعد
رشتے جوڑنے والے صف آرا تھے
یہ لگتا تھا کہ کچھ ہی دیر میں
ماتم بپا ہوگا
میں ان باتوں سے
بستر پر پڑا
آنکھوں کو تھوڑی سی کھلی رکھ کر
بڑے دلچسپ موڈ میں تھا
سبھی غمگین تھے لیکن
تمنائیں تھیں آنکھوں میں
یکایک میں نے کروٹ لی
اور آنکھیں کھول کر اٹھنے کی کوشش کی
تو دیکھا
سبھی کے لب پہ مصنوعی ہنسی تھی
چمک آنکھوں سے غائب تھی