نہ مقامات نہ ترتیب زمانی اپنی

نہ مقامات نہ ترتیب زمانی اپنی
اتفاقات پہ مبنی ہے کہانی اپنی


جسم سی جاتی ہے تہہ حرف کسی کرب کی موج
تھم کے رہ جاتی ہے لفظوں کی روانی اپنی


پھیل جاتی تھی سماعت کی زمینوں میں نمی
تھی کبھی تر سخنی آب رسانی اپنی


لاکھ تم مجھ کو دباؤ میں ابھر آؤں گا
سطح ہموار کیے رہتا ہے پانی اپنی


ماجرا روح کی وحشت کا نجی ہے اے سازؔ
آگے روداد نہیں ہم کو سنانی اپنی