نہ کیوں اپنی محبت کو ہی بے لفظ و بیاں کر لیں

نہ کیوں اپنی محبت کو ہی بے لفظ و بیاں کر لیں
خموشی کو زباں کر لیں نظر کو داستاں کر لیں


حسیں ہے حسن سے تیرے یہ پستی بھی بلندی بھی
نہ کیوں پھر تجھ کو سجدے ہم جہاں چاہیں وہاں کر لیں


تبسم کو لب لالی پہ اپنے کچھ بکھرنے دو
دل ویراں کو دم بھر ہم بھی رقص گلستاں کر لیں


یہی موسم یہی دن تھے کہ ہم سے قافلہ چھوٹا
محبت سے ہم اک بار اور یاد کارواں کر لیں


شکستہ پر ہیں پہنچے کس طرح اجڑے نشیمن میں
بہ صد حسرت نگاہیں کیوں نہ سوئے آشیاں کر لیں


نگاہیں دیکھیں ساقی کی کہ اس کے ہاتھ میں ساغر
ذرا ذوق نظر کا آج ہم بھی انتہا کر لیں


حبیبؔ اس زندگی میں یہ بدی بد صورتی کیسی
حسیں ہم کیوں نہ حسن یار سے اپنا جہاں کر لیں