نہ خود سری میں حسیں روز و شب گزارا کر
نہ خود سری میں حسیں روز و شب گزارا کر
زمین دل پہ کبھی پاؤں بھی پسارا کر
کنارے لگ گئی میرے بھی شوق کی کشتی
مرے رفیق تو اب شوق سے کنارا کر
کسی کے ہجر میں تصویر بن گیا ہوں میں
حسین شام کے منظر مجھے نہارا کر
یہی ہے لطف انا کا یہی ہے دل داری
کہ بازیوں کو کبھی جیت کے بھی ہارا کر
نکال کوئی تو صورت کہ فاصلے نہ رہیں
قریب آ مرے یا پھر مجھے اشارہ کر
تری صدائیں کبھی رائیگاں نہ جائیں گی
وہ سن رہا ہے یہی سوچ کے پکارا کر
حصول امن و محبت کی چاشنی کے لیے
مزاج تلخیٔ دوراں سخنؔ گوارا کر