نہ جانوں میرؔ کیوں ایسا ہے چپکا

نہ جانوں میرؔ کیوں ایسا ہے چپکا
نمونہ ہے یہ آشوب و بلا کا
کرو دن ہی سے رخصت ورنہ شب کو
نہ سونے دے گا شور اس بے نوا کا