نہ دے فریب وفا لے نہ امتحاں اپنا

نہ دے فریب وفا لے نہ امتحاں اپنا
ہے بے‌ نیاز کرم یار بد گماں اپنا


پہنچ چکے تھے سر شاخ گل اسیر ہوئے
لٹا ہے سامنے منزل کے کارواں اپنا


ہر ایک ذرۂ عالم ہے اور سجدۂ شوق
رکھیں اٹھا کے وہ اب سنگ آستاں اپنا


وہی ہے عالم افسردگی وہی ہم ہیں
خوشی کا جس میں گزر ہو وہ دل کہاں اپنا


نگاہ یاس ہے تفسیر صد ہزار نیاز
سکوت لاکھ بیانوں کا اک بیاں اپنا


فریب ہی سہی تسکین کچھ تو ہے دل کو
رہے خدا کرے قائم یوں ہی گماں اپنا


وفا کا نام ہی دنیا سے اٹھ چکا کیفیؔ
کہاں زمانے میں اب کوئی قدرداں اپنا