نہ بندہ نہ مولا عجب آدمی ہے
نہ بندہ نہ مولا عجب آدمی ہے
مرے شہر کا منتخب آدمی ہے
بکھرتے ہوئے لوگ حیراں پریشاں
کوئی آدمی رب نہ رب آدمی ہے
اٹھائے پھروں ہفت افلاک سر پر
زمیں کو شکایت عجب آدمی ہے
بھلے لوگ شاعر کو سمجھا رہے ہیں
کھرا آدمی بے طلب آدمی ہے
کہ تو کون تھا کون ہے کیا بتاؤں
نہ انسان تب تھا نہ اب آدمی ہے