نہ آنسوؤں میں کبھی تھا نہ دل کی آہ میں ہے
نہ آنسوؤں میں کبھی تھا نہ دل کی آہ میں ہے
تماش بین ہمیشہ سے رقص گاہ میں ہے
بنام عشق مری زندگی ترے قرباں
مگر نصیب مرا بے طلب نباہ میں ہے
میں جانتا ہوں کہ ہے کس کی آنکھ کا آنسو
وہ ایک لعل جو اب تک مری کلاہ میں ہے
دلوں کے رشتے ہیں سب الوداعی منزل میں
کہ ناگزیر اذیت ہر ایک چاہ میں ہے
نماز عید کئی سال سے نہ پڑھ پایا
بہ نام موت کوئی خوف عید گاہ میں ہے
یہ میری فکر نئے دور کی امانت ہے
کہ آنے والی صدی بھی مری نگاہ میں ہے
یہ اتفاق بھی اک انحراف ہے گویا
مرا ضمیرؔ ابھی تک مری پناہ میں ہے