نہ آنا تھا نہ آخر مجھ کو انداز بیاں آیا
نہ آنا تھا نہ آخر مجھ کو انداز بیاں آیا
کرم تو دیکھیے اس در سے پھر بھی شادماں آیا
نظر آنے لگی اب تو تجلی پیرہن ہر شے
جبین شوق سجدہ کر کہ ان کا آستاں آیا
دہائی ہے شعور بندگی تیری دہائی ہے
وہ آیا وہ مقام سجدۂ دل ناگہاں آیا
اگر صادق ہے ذوق جستجو تو ایک دن اے دل
پکار اٹھیں گے خود ذرے وہ ان کا آستاں آیا
اچانک مچ گئی ہلچل سی دنیائے تحمل میں
سر مژگاں جب اپنے آنسوؤں کا کارواں آیا
ہم ہی کچھ جانتے ہیں قیمت ان پانی کے قطروں کی
انہیں اشکوں کا صدقہ ہے کہ انداز بیاں آیا
شفقؔ مجھ سا بھی ناکام تمنا کوئی کیا ہوگا
ہوئی مجھ کو تلاش اپنی جب ان کا آستاں آیا