ن م راشد اور ترقی پسندی


زیر نظر مضمون ماہنامہ پاکستانی ادب کے اگست ۱۹۷۵ء کے شمارے میں اداریے کے طور پر شائع ہوا۔ اس کے ساتھ ہی ن۔ م راشد کا مکتوب بھی شائع ہوا جس کے حوالے سے اداریہ سپرد قلم کیا گیا تھا۔ یہاں یہ دونوں تحریریں پیش کی جا رہی ہیں۔ (مرتب) جناب ن۔ م۔ راشد کا شمار لفظ و معنی دونوں اعتبار سے جدید اردو شاعری کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ اب تک ان کے تین مجموعے ماوری، ایران میں اجنبی اور لا = انسان شائع ہو چکے ہیں۔ مدت گزری لاہور میں ہم ان کے پڑوسی تھے۔ پھر ایسا ہواکہ، او بہ صحرا رفت و من در کوچہ ہا رسوا شدیم۔ انہوں نے اس اثنا میں نیویارک، تہران اور خدا جانے کس کس دیس میں ڈیرے ڈالے اور اب لندن میں مستقل سکونت اختیار کر لی ہے۔ راشد صاحب بڑے عالم و فاضل بزرگ ہیں۔ اردو، فارسی، انگریزی اور دوسری کئی زبانوں کے کلاسیکی و جدید ادب پر ان کی گہری نظر ہے۔ شاید اسی باعث ان کے تخیل کا افق بہت وسیع ہے اور ان کے کلام میں تفکر کا عنصر بہت غالب ہے۔ پاکستانی ادب کے اجرا کے موقع پر ہم نے راشد صاحب سے نظموں کی درخواست کی تھی لیکن وہ خط ان کو نہیں ملا۔ کچھ عرصے کے بعد افکار کے ندیم نمبر میں ان کا ایک مکتوب شائع ہوا، جس میں انہوں نے کمیونزم اور ترقی پسند ادب کے باہمی رشتے پر اظہار خیال فرمایا تھا، ہم نے ایک خط میں راشد صاحب کے ارشادات سے اختلاف کیا تھا۔ راشد صاحب نے جواب میں جو خط لکھا ہے وہ شامل اشاعت ہے۔ انہوں نے زیر بحث مکتوب میں چند بنیادی سوال اٹھائے ہیں۔ (۱) کمیونزم اور ترقی پسندی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ (۲) اکثر یا بعض ترقی پسند مخلص نہیں ہیں اور نہ انہوں نے ترقی پسند نقطہ نظر کو کسی اصول یا مسلک کے طور پر اختیار کیا ہے۔ (۳) سیاسی اقتدار بزور قائم ہونے سے انسان کے اس اختیار کی نفی ہوتی ہے، جو اسے انسان کی حیثیت سے ودیعت کیا گیا ہے۔ (۴) کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ادیب کو کسی خاص قسم کا ادب تخلیق کرنے کا حکم یا ہدایت دے۔ کمیونزم سے راشد صاحب کی مراد غالبا ًکارل مارکس کے اشتراکی فلسفے سے ہے۔ مگر اس فلسفے کی عمر تو سوا سو سال سے زیادہ نہیں جب کہ انسان ترقی پسندی کے جذبے اور شعور کی پرورش ہزاروں برس سے کر رہا ہے۔ اس لئے راشد صاحب کا یہ فرمانا کہ کمیونزم اور ترقی پسندی کا چولی دامن کا ساتھ ہے، تاریخی اعتبار سے درست نہیں ہے۔ انسان نے جب آلات و اوزار بنائے، جب آگ کا استعمال دریافت کیا، کھیتی باڑی کی طرح ڈالی اور بستیاں آباد کیں، جب زندگی کی اندھیری رات میں علم و آگہی کے چراغ جلائے تو یہ سب اس کی ترقی پسندی ہی کے کرشمے تھے۔ ان کا کمیونزم سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہے البتہ انسانی تاریخ کے ہر دور میں ایسی قوتیں بھی سرگرم عمل رہی ہیں کہ فنا آفرینی جن کا مسلک اور شب آفریدگی جن کا شعار تھا۔ چراغ مصطفوی اور شرار بولہبی کی یہ ستیزہ کاری ازل سے تاامروز جاری ہے اور یہاں سے تعہد کا مسئلہ اٹھتا ہے۔ یعنی موت کی شرانگیز اور زندگی کی خیربخش قوتوں کی نبردآزمائی میں ہم کس کا ساتھ دیں۔ ترقی پسندی کا تو بس ہر دور میں ایک ہی معیار رہا ہے اور وہ یہ کہ فرد اپنے ماحول، اپنے معاشرے اور اپنی ذات کو زیادہ حسین، بامعنی اور ’’تخلیقی‘‘ بنانے میں کیا کردار ادا کرتا ہے۔ آیا وہ ان قوتوں کا ساتھ دیتا ہے جو انسان کی فکری اور تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے کی سعی میں مصروف ہیں یا ان قوتوں کا جو زندگی کو پیچھے لے جانے کے درپے ہیں۔ ترقی کا جو قانون معاشرتی زندگی پر لاگو ہوتا ہے، ادب اور دوسرے فنون لطیفہ بھی اسی قانون کے تابع ہوتے ہیں۔ ترقی پسندی کا جو خون معاشرتی زندگی کی جان ہے، وہی ادب کی رگوں میں بھی دوڑتا رہتا ہے۔ وہ کون ترقی پسند ادیب ہوگا جویہ احمقانہ دعوی کرے کہ کارل مارکس سے پیشتر کا سارا ادب غیرترقی پسندانہ ہے۔ کیونکہ ہر زمانے اور ہر زبان میں ترقی پسند اور غیر ترقی پسند دونوں قسم کا ادب تخلیق ہوتا رہا ہے۔ کس میں اتنی جرأت ہے کہ جو یہ کہے کہ ہومر، ورجل، دانتے، فردوسی، سعدی، شیکسپئر، بیدل، غالب اور نظیر اکبرآبادی وغیرہ وغیرہ ترقی پسند تھے۔ اس لئے انہوں نے شوسلزم کی مدح سرائی نہیں کی، یا کمیونسٹ مینی فیسٹو کو نظم نہیں کیا۔ البتہ جب ایزرا پاؤنڈ یا گیبریل ڈانزیو فاشزم کی ثنا و صفت میں قصیدے لکھیں اور ہم سے توقع کی جائے کہ ہم ان کے کلام کے معنی اور مفہوم پرنہ جائیں بلکہ ان کے پیرایہ اظہار پر سر دھنیں، تو یہ ایسا ہوگا جیسے کوئی یہ کہے گا کہ ناگاساکی اور ہیروشیما کی خون آشام تباہیوں پر دھیان نہ دو بلکہ ایٹم بم پھٹنے سے جو چھتری نما آتشیں غبار اٹھا تھا اس کے حسن کی داد دو۔ کنوٹ ہامزوں ناروے کا نوبل انعام یافتہ ادیب تھا، اس کی تصنیف ’’بھوک‘‘ لوگوں کوبہت پسند تھی لیکن جب ناروے پر ہٹلر کا قبضہ ہوا اور کنوٹ ہامزوں نازیوں سے مل گیا تو معلوم ہے، اس کے ہم وطنوں نے اپنے محبوب فنکار سے نفرت کا اظہار کس طرح کیا۔ انہوں نے ’’بھوک‘‘ کے نسخے الماریوں سے نکال نکال کر مصنف کو واپس بھجوا دیے۔ ممکن ہے کسی کو ناروے والوں کی اس حرکت پر ہنسی آئے مگر ہم کنوٹ ہامزوں کے سے ہزاروں انعام یافتہ ادیبوں کو ناروے والوں کے جذبہ حریت اور غیرت انسانی پرنثار کرتے ہیں۔ احتجاج کی وہ ایک ساعت ان کی ترقی پسندی کا اعلان نامہ تھی اور آزادی کا وہ ایک لمحہ ’’بھوک‘‘ کی حیات جاوداں سے لاکھ درجے قیمتی تھا۔ جہاں تک ترقی پسندوں کے خلوص یا اصول پرستی کا سوال ہے، سو اس کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ اس لئے کہ راشد صاحب کی سوچ کا انداز خالص داخلی اور استقرائی ہے، انہوں نے غالباً بعض افراد کے طرز عمل سے یہ کلیہ وضع کیا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ راشد صاحب نے ترقی پسند ادب کی تحریک کے ساتھ ناانصافی کی ہے، بلکہ اس کا فیصلہ کہ راشد صاحب حق پر ہیں یا ہم، تاریخ کرے گی۔ جہاں تک سیاسی اقتدار کے بزور قائم کرنے یا ہونے کا سوال ہے تو ہماری دلی آرزو بھی یہی ہے کہ دنیا کے تمام معاشی، سیاسی اور سماجی مسائل افہام و تفہیم اور امن و آشتی سے طے پائیں۔ نہ زور آزمائی کی جائے نہ خون خرابہ ہو۔ مگر افسوس ہے کہ نہ ماضی نے ہماری ان خواہشوں کا احترام کیا اورنہ فی زمانہ (اقوام متحدہ کے منشورکے باوجود) ہماری خواہشوں پرعمل ہوتاہے، تاریخ گواہ ہے کہ سیاسی اور معاشی اقتدار ہر دور اور ہر ملک میں قوت ہی کے بل پر حاصل کیا گیا ہے، کبھی کوئی طبقہ، مخالف طبقے کی دلیلوں یاعرض داشتوں سے متاثرہو کر اپنی حاکمیت سے دست بردار نہیں ہوا ہے۔ خود سرمایہ داری نظام کو یورپ میں اپنا اقتدار قائم کرنے کے لئے جاگیرداروں سے جو مسلح جد و جہد کرنی پڑی، اس سے ہر شخض واقف ہے۔ سترہویں صدی عیسوی میں برطانیہ میں سرمایہ داری نظام کے حامیوں اور جاگیرداری نظام کے محافظوں کے درمیان برسوں تک کشت و خون کا بازار گرم رہا۔ بادشاہ چارلس اول کا سر قلم ہوا تب کہیں جاکر سرمایہ دارطبقہ برسر اقتدار آیا۔ یہی صورت حال امریکہ کی جنگ آزادی اور انقلاب فرانس کے دوران پیش آئی۔ اس کے مقابلے میں روس کا سوشلسٹ انقلاب بے حد پرامن تھا۔ سینٹ پیٹر برگ (لینن گراڈ) کے مزدوروں نے جب بالشویک پارٹی کی رہنمائی میں زار کے قصر شاہی پر دھاوا کیا تو خون کا ایک قطرہ بھی نہ بہا۔ البتہ خونریزی اس وقت شروع ہوئی جب زار کے مختلف فوجی جرنلوں نے روس کی سوشلسٹ حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور برطانیہ، فرانس اور امریکہ کی فوجی اور مالی مدد سے ملک گیر خانہ جنگی شروع کی۔ نازیوں کے بر سر اقتدار آنے کے بعد سامراجی طاقتوں نے پرامن انتقال اقتدار کی نقاب بھی اتار کر پھینک دی۔ چنانچہ اسپین میں جب ۱۹۳۵ میں پہلی بار جمہوریت پسندوں کے متحدہ محاذ کوعام انتخابات میں پر امن طریقے پرفتح ہوئی توجنرل فرانکو نے ہٹلر اور مسولینی کے اشارے پر اسپین کی نئی جمہوریت کے خلاف بغاوت کردی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سامراجی طاقتوں نے کئی جمہوری حکومتوں کا جو پر امن اور آئینی ذرائع سے بر سر اقتدار آئی تھیں، مسلح بغاوت کے ذریعہ تختہ الٹ دیا اور ہزاروں لاکھوں بے گناہ قتل ہوئے، کانگو میں لومبیا کا قتل، گنی میں ڈاکٹراین کروما کی اور انڈونیشیا میں ڈاکٹر سوئیکارنو کی حکومت کی برطرفی، چلی میں فوجی بغاوت اور ہزاروں انسانوں کا قتل، جنوبی چین میں ۲۷ سال کی طویل خانہ جنگی، ویتنام میں ۱۱سالہ خونریز جنگ اور سی آئی اے کی نوازش ہائے پیہم کے حالیہ انکشافات اس تلخ حقیقت کا ثبوت ہیں کہ جاگیردار طبقہ ہو یا سرمایہ دار طبقہ ہنسی خوشی اپنے اختیارات کسی دوسرے طبقے کو نہ پہلے سونپنے کے لئے تیار تھا نہ آج ہے۔ تشدد برائے تشدد سوشلسٹوں کا کبھی مسلک نہیں رہا ہے، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ مخالف قوتوں نے ہمیشہ ان پر تشدد کیا ہے۔ البتہ وہ اہنسا کے قائل نہیں ہیں اور جب ان پرحملہ ہوتا ہے تو پھر انہیں بھی زور کا جواب زور سے دینا پڑتا ہے۔ جہاں تک کسی ادیب کی شخصی آزادی کا تعلق ہے، ہم راشد صاحب کے موقف کی صدق دل سے تائید کرتے ہیں بلکہ ہمارا خیال تو یہ ہے کہ شخصی آزادی ہر بشر کا خواہ وہ ادیب ہو یا غیر ادیب، پیدائشی حق ہے۔ اس لئے انسان کی تخلیقی صلاحیتوں اور طبعی میلانات کو مکمل آزادی کی فضا ہی میں فروغ مل سکتا ہے۔ بندگی میں اس کی زندگی واقعی جوئے کم آب ہو جاتی ہے۔ راشد صاحب نے ’’لا، مساوی انسان‘‘ کے دیباچے میں کیا خوب کہا ہے کہ ’’غلامی فرد کی قیمت اور قامت دونوں کو کم کر دیتی ہے۔ اس قسم کی زندگی میں عشق اور فکر دونوں کوتاہ اور کم مایہ ہو کر رہ جاتے ہیں۔‘‘ لیکن ان کا یہ الزام کہ ترقی پسند حضرات شاعر کو موضوع کے انتخاب میں اپنے انفرادی حق سے دست بردار ہو جانے کی تلقین کرتے ہیں، بے بنیاد ہے۔ ہندوستان پاکستان کے کس ترقی پسند شاعرنے کس شاعر یا فنکار کو یہ ہدایت دی ہے کہ تم اس قسم کا ادب تخلیق کرو اور اس قسم کا ادب تخلیق مت کرو۔ البتہ تخلیقی انسان عجیب و غریب ہے کہ وہ احکام کی بجاآوری کے دوران میں بھی عظیم فن پارے تخلیق کر لیتا ہے۔ آخر فردوسی نے شاہنامہ محمود غزنوی کی فرمائش ہی پر تو لکھا تھا۔ اور مائکل اینجلو اور رفیل نے پاپائے روم کے حکم ہی سے تو کلیسائے روم کی دیواری تصویریں بنائی تھیں اور شیکسپئر نے بیشتر ڈرامے ناٹک گھر کے مالک کی ہدایت ہی پر پیٹ کی خاطر لکھے تھے۔ ابھی کل کی بات ہے کہ اردو شعرا (جن میں غالب، میر اور سودا بھی شامل ہیں) طرحی مصرعوں پر فرمائشی غزلیں لکھا کرتے تھے۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہم حکم، ہدایت، یا نصیحتوں کے حق میں ہیں۔ بلکہ ہمارا موقف بھی یہی ہے کہ ہر فنکار کو اپنے ’’رویا‘‘ ہی کی بات ماننی چاہئے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ کسی نے فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، فارغ بخاری، عصمت چغتائی، کرشن چندر یادوسرے ترقی پسند ادیبوں سے کبھی یہ نہیں کہا کہ تم اس قسم کی کہانی، یا نظم یا غزل لکھو۔ بلکہ سب نے اپنے اپنے فلسفہ زیست اور جمالیاتی ذوق کے مطابق اپنے ’’رویا‘‘ کی پیروی کی۔ ہمیں کامل یقین ہے کہ راشد صاحب شخصی آزادی کی پاسبانی بدستور کرتے رہیں گے۔ اور وطن سے ہزاروں میل دور رہ کر بھی ابنائے وطن کے جبر و اختیار کی جد و جہد کو نظر انداز نہ کریں گے۔ اس لئے کہ اظہار ذات اور تحصیل ذات پورے بنی نوع انسان کا مشترکہ حق بھی ہے اور مسئلہ بھی۔ ن م راشد کے تاثراتبرادرعزیز، آپ تندرست اور خوش وخرم رہیں۔ آپ کا خط ملا اور آپ نے یہ تو بہت ہی بڑا کرم کیا کہ مجھے اپنے ماہنامے کے پانچ شمارے بھجوائے۔ پہلا شمارہ جو آپ نے تہران کے پتے پر بھجوایا اب تک موصول نہیں ہوا اور نہ آپ کا وہ خط ملا جوآپ نے اس پتے پر لکھا تھا۔ میں انگلستان میں آباد ہونے کی خاطر ہی یہاں منتقل ہوا ہوں۔ جن گناہوں کا عادی ہو چکا ہوں، ان کے لئے پاکستان میں کوئی گنجائش نہیں۔ آپ وہاں رہ رہے ہیں اور کسی اور نئی صبح کے انتظار میں دن کاٹ رہے ہیں تو میں آپ کی ہمت کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ سب سے اہم بات میرے خلاف یہ ہے کہ بیوی انگریز ہے اور رومی کے قول کے مطابق، رشتہ اے در گرد نم افگندہ دوست، می رود ہر جا کہ خاطر خواہ اوست۔ اکثر جی چاہتا ہے کہ ان علائق کو توڑ کر واپس پاکستان آجاؤں، لیکن بوجوہ ممکن نہیں۔ وہاں آپ اور کئی احباب زبان کھلوائیں گے اور’’گلیوں میں میری عقش کو کھینچتے پھریں گے۔‘‘ اسی سبب سے جس سے غالب کو اندیشہ تھا۔ میں یہاں انگلستان میں اپنی زبان بندی پر خوش ہوں کہ میں نے اس کا فیصلہ خود کیا ہے۔ کسی اور کے فرمان سے نہیں اور ’’خاموشم و گویایم حرفم بہ کتاب اندر‘‘ کی کیفیت میں بڑی لذت ہے۔ میں نے صہبا کے نام اپنے خط میں ’’کمیونسٹوں‘‘ کے بارے میں جس رائے کا اظہار کیا تھا، وہ اول تو کمیونسٹوں کے بارے میں رائےکی حیثیت ہی نہیں رکھتی تھی۔ بلکہ صرف کمیونزم اور ’’ترقی پسندی‘‘ کے باہمی رشتے کی طرف اشارہ مقصود تھا۔ دوسرے کسی ’’ذاتی تجربے‘‘ کا اس میں کوئی شائبہ نہ تھا کہ مجھے کمیونسٹوں یا نام نہاد ترقی پسندوں کا کوئی تجربہ ہے ہی نہیں۔ میں نے صرف یہ کہا تھا کہ ’’کمیونزم اور ترقی پسندی کا چولی دامن کا ساتھ ہےاور جو لوگ کمیونزم کو سمجھے بغیر اپنے آپ کو ترقی پسند کہتے ہیں وہ اسلام کے ان جاہل ملاؤں یا عیسائیت کے ان نادان پادریوں کے مانند ہیں جو محض توہمات کو مذہب سمجھتے ہیں۔ شاید آپ کو یاد ہو کہ کئی برس پہلے ایک ترقی پسند ادیب نے جو کسی ترقی پسند رسالے کے مدیر بنا دیے گئے تھے، اپنے پہلے یا دوسرے اداریے میں کیا لکھا تھا؟ ’’میں جب بورژوا کے پھٹے پرانے کپڑے دیکھتا ہوں تو میری آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔‘‘ آج ان کا شماربڑے ترقی پسندوں میں ہوتا ہے۔ لیکن ان کی ابتدا جہاں سے ہوئی، اس منزل پر اور بہت سے ترقی پسند ابھی تک پڑے ہوئے ہیں۔ اکثریا بعض (جو آپ کو پسند ہو) ترقی پسند فیشن کے طور پر اس مسلک کے پیروکار ہیں یا کسی کے کہنے سننے پر اور اپنی ذاتی فکر کے فقدان کے باعث اس راہ پر آنکھیں بند کئے چلے جا رہے ہیں۔ بعض ایسے ہیں جنہیں یہ اعتماد ہے کہ اگران کا قامت بڑھ گیا توقیمت بھی بڑھ جائے گی اور بعض کی تجارتی اغراض اس سے سراسر وابستہ ہو گئی ہیں اور اب ان اغراض کو ترک کر کے خسارہ مول لینا نہیں چاہتے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے مجھے کمیونزم سے کوئی کد نہیں اور اگر ہے تو صرف اسی حد تک جس حد تک ملائیت سے ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اشتراکی معاشرہ وجود میں آکر رہے گا۔ کیونکہ انسانی مسائل بپھرتے چلے جا رہے ہیں، لیکن یہ نہیں جانتا (اور شاید خود فیض بھی نہیں جانتے) کہ اس معاشرے کے وجود میں آنے کے بعد انسان کا مستقبل کیا ہوگا۔ تاہم مجھے اشتراکی معاشرے پر کوئی اعتراض نہیں۔ انسانیت اس سے پہلے بھی کئی تجربوں سے گزر چکی ہے، ایک تجربہ اور سہی۔ مجھے صرف اشتراکی حکومتوں پر اعتراض ہے جو اس معاشرے کے وجود میں آنے سے پہلے بزور قائم ہوگئی ہیں۔ ان کے بزور قائم ہونے پر اعتراض ہے کیونکہ یہ انسان کے اس اختیار کی نفی ہے جو اسے انسان کی حیثیت سے ودیعت کیا گیا ہے۔ اس قسم کی حکومتوں کے برسر اقتدار آنے پر ظلم و تشددد کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ تاریخ اس کی شاہد ہے کہ جب بھی کوئی حکومت یک طرفہ تعصبات کے ساتھ کر آدمی پر تھوپ دی گئی۔ ظلم و تشدد کا جواز تلاش کر لیا گیا۔ آج ہم جس ظلم اور جس تشدد کے شاکی ہیں، ترقی پسندی کے نام سے ویسے ہی مظالم کئی اور ملکوں میں روا رکھے گئے ہیں جہاں کوئی متعصب نظریات کی حامل حکومت آکر لوگوں کے سر پر بیٹھ گئی ہے۔ آپ جانتے ہیں، میں کسی گروہ میں شامل نہیں ہوں، مجھے تنہا ترقی پسندوں ہی سے کوئی تعلق نہیں رہا بلکہ اسلامی ادب والوں یا ایسے ہی کسی اور لیبل والوں سے بھی دور رہا ہوں، حتی کہ میں رائٹرز گلڈ سے بھی دور رہا ہوں۔ مجھے صرف یہ اعتراض ہے کہ مجھ سے کوئی کیوں کہے کہ میں ایسا ادب تخلیق کروں اور ایسا ادب تخلیق نہ کروں۔ رومی اور اقبال سے کس نے کہا تھا کہ وہ اسلامی ’’شاعری‘‘ کریں۔ نرودا سے کس نے کہا تھا کہ وہ ’’ترقی پسندانہ‘‘ شاعری کرے۔ (نرودا نے تو آج تک اپنے ذاتی حزن کے اظہار کو بھی اپنا حق جانا ہے) میرے جس تعہد (COMMITMENT) کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے وہ صرف اس حد تک ہے کہ وہ میرا اپنا تعہد ہے اور میرے ساتھ ہے اور یہ کہ میں تعہد پرمجبور ہوں بلکہ ایک طرح قدرت کی طرف سے مقہور بھی! میں اپنے آپ کو کسی کے چشم و ابرو کے اشارے کا منتظر سمجھتا ہوں نہ محتاج۔ مجھے اس سے بھی غرض نہیں کہ اس تعہد کا اظہار ’’فنی پیرائے‘‘ میں ہوا یا نہیں۔ مجھے صرف اس کا اظہار مقصود ہے کہ میں اس پرمجبور ہوں کہ یہی میرا درد دل ہے۔ وہ ’’حسی تجربات کی روح میں جذب‘‘ ہو یا نہ ہو مجھے اس سے کوئی واسطہ نہیں۔ کیونکہ اگریہ ان تجربات میں جذب ہو تو زیادہ سے زیادہ عزیزی مجتبی حسین یہ کہہ دیں گے کہ اس کی شاعری روح سے خالی ہے یا یہ شخص محض ٹیکنیکل شاعری کرتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ایسے لوگوں کی رائے مجھے کیوں متاثر کرے اور کیسے کرے؟ میں وہی کہنے پر مجبور ہوں جو کہہ سکتا ہوں۔ صرف اس صورت میں کہہ سکتا ہوں جس صورت میں کہنا مجھے ’’ہاتف‘‘ نے سکھایا ہے (خود مجتبی حسین کا یہ حال ہے کہ شعر صحیح نہیں لکھ سکتے۔ جوغزل اور نظم آپ نے شائع کی ہیں انہیں میں عروض کی خامیاں دیکھ لیجئے۔ ایک پروفیسر کو کم از کم عروض کی کوئی ابتدائی کتاب تو پڑھ ہی لینی چاہئے) انہیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ عربی اور فارسی کا لفظ کیا ہوتا ہے؟ اور معرب اور مفرس لفظ کسے کہتے ہیں؟ انہیں تو ایک شاعر اور دوسرے شاعر کے رنگ میں امتیاز کرنے کا سلیقہ بھی قدرت نے نہیں بخشا۔ وہ شعر کو جس سطحی نظر سے دیکھتے ہیں وہ ایک ادب کے استاد ہی کے حق میں مضر نہیں بلکہ بے بس طالب علموں کے لئے بھی مہلک ہے۔ میں نعرہ بازی سے بھی نہیں ڈرتا۔ حبیب جالب کے کلام میں نعرہ بازی ہے لیکن ایسی کہ دل پر اثر کرتی ہے۔ جعفر طاہر جو اصطلاحاً ترقی پسند نہیں خطابت کا رسیا ہے۔ لیکن اس کی خطابت اس کی شاعری کی نفی نہیں کرتی ہے اور کتنے نام گنواؤں؟ ’’پاکستانی ادب‘‘ کے جو پرچے آپ نے مجھے بھجوائے ہیں ان میں، میں نے اپنی سمجھ میں آنے والی سب چیزیں پڑھ ڈالی ہیں۔ اردورسالے میں سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ فیض کے سگریٹوں کے مانند جلد ختم ہو جاتا ہے۔ میں نے آپ کی ہدایت کے باوجود آپ کے ماہنامے کا مطالعہ ’’ہمدردی سے نہیں کیا۔‘‘ میں سمجھتا ہوں کہ اس کا معیار اب تک پست ہے۔ شاید آپ جیسے ذہین اور باخبر آدمی سے اور زیادہ توقع رکھتا ہوں۔ اگرچہ میں خود اگر کوئی رسالہ جاری کرتا تو مجھے اس رسالے سے بھی یہی گلہ ہوتا۔ بہت کچھ لکھنے والوں پر منحصر ہے۔ از دام و در ملولم و انسانم آرزوستآپ کا بے حد مخلص ن۔ م۔ راشدلندن ۱ جولائی ۱۹۷۵ء