علامہ اقبال کی عظیم شاعری کا راز۔۔ جانیے ان کی زبانی
شاعری ایک فن ہے اور تمام فنون کی طرح اس کا خمیر بھی جمالیات ہی سے اٹھا ہے۔ شاعر جس قدر خوبی سے اپنے اندر پیدا ہونے والے احساس کو ایک واضح خیال کی صورت دیتا ہے اور اس خیال کے لیے موزوں الفاظ چن کر اپنے احساس کو قرطاس تک منتقل کرتا ہے اسی قدر اس کا فن دوام پاتا ہے ۔ احساس کا یہ سفر کسی خداداد سوچ سے بھی شروع ہو سکتا ہے اور ذاتی تجربے سے بھی۔
دونوں صورتوں میں کے بارے میں اقبال فرماتے ہیں:
بات دل سے جو نکالتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
عجب بات ہے کہ جو اقبال بات کی اثر آفرینی کے لیے اس کا تعلق دل سے ہونا لازم قرار دیتے ہیں، ہمارے ہاں جب ان کو حکیم الامت ، مفکر پاکستان یا مصور پاکستان کے القابات سے پکارا جائے تو بہت خوشی سے قبول کیا جاتا ہے لیکن جب ان کو ایک اعلیٰ پائے کے شاعر کے طور پر پیش کیا جائے تو اسے مانا تو جاتا ہے لیکن ساتھ ہی دبی سی زبان میں یہ ذکر کرنا ضروری گردانا جاتا ہے کہ "اقبال کی اصل عظمت ان کی فکر میں پنہاں ہے، شاعری کو انہوں نے محض ذریعہ اظہار بنایا۔"
تو صاحب! علامہ اقبال نے شاعری کو ہی کیوں ذریعہ اظہار بنایا ، نثر کیوں نہیں ؟ آخر وہ شاعری کو نثر پر کچھ فوقیت دیتے تھے تو انہوں نے یہ انتخاب کیا۔
خیر! یہ ایک طویل بحث ہے جو پھر کبھی سہی ۔ آج ہم دیکھیں گے کہ وہ کیا کیفیات ہوتی تھیں جو شعر کہتے ہوئے حضرت اقبال پر طاری ہو جایا کرتی تھیں ۔ اسی تذکرے سے ہم یہ بھی سمجھ جائیں گے کہ ان کی شاعری میں کس قدر ان کے دل کا دخل تھا اور کتنا ان کے دماغ کا۔
مزید یہ تحریر پڑھیے: اقبال کو سمجھنے والوں کا قحط
علی بخش جو اقبال کے وفادار ملازم تھے وہ اقبال کے شعر گوئی کے عمل کا تذکرہ یوں کرتے ہیں :
" شعر کہتے وقت ڈاکٹر صاحب کی عجیب کیفیت ہوتی تھی ۔بیٹھے بیٹھے لیٹ جاتے ، بار بار پہلو بدلتے ۔کبھی چہرے پر اضطراب ہوتا تھا ،کبھی بشاشت ۔۔ان کے پلنگ کے پاس ایک میز ہوتی تھی ، اس پر ایک کاپی پڑی رہتی تھی ۔ جب شعر کہنے کو طبیعت چاہتی لکھنا شروع کر دیتے ۔کبھی کبھی کوئی ملنے کو آ جاتا تو اسے شعر لکھوا دیتے"
(اقبال نامہ، مرتبہ چراغ حس حسرت ، ص 25)
یہاں تک تو سب حرکات و سکنات شاعروں والی ہیں اور علی بخش کیوں کہ سادہ سے آدمی تھے اس آگے کا کوئی تبصرہ ان سے توقع کرنا مناسب نہیں معلوم ہوتا ۔ البتہ ایک دوسرے بیان میں وہ اتنا ضرور اضافہ کرتے ہیں کہ اقبال جب بھی شعر کہتے کلام پاک بھی ان کے پاس ہوا کرتا تھا ۔ جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اقبال کے ہاں فن کو کلام پاک کی کسوٹی پر پرکھنے کا التزام تھا۔
یہ بھی پڑھیے: اک مرد قلندر نے کیا راز خودی فاش: اقبال ؒ کے شخصی اوصاف
اقبال کے صاحبزادے جاوید اقبال ان کے بیماری کے ایام میں شعر گوئی کے حوالے سے فرماتے ہیں:
" جب شعر کی آمد ہوتی تو ان کی طبیعت اور خراب ہو جاتی ۔چہرے پر تغیر رونما ہو جاتا تو بستر پر کروٹیں بدلتے ۔کبھی اٹھ کر بیٹھ جاتے اور کبھی گھٹنوں میں سر دے دیتے ۔اکثر اوقات وہ رات کو دو تین بجے علی بخش کو تالی بجا کر بلاتے اور اسے اپنی بیاض اور قلم دوات لانے کو کہتے ۔جب وہ لے آتا تو بیاض پر اشعار لکھ دیتے ۔اشعار لکھ چکنے کے بعد ان کے چہرے پر آہستہ آہستہ سکون کے آثار نمودار ہو جاتے اور وہ آرام سے لیٹ جایا کرتے۔ "
(مئے لالہ فام ، ص 178)
یہ بھی پڑھیے: اقبال کی زندگی کے آخری لمحات اور کچھ خاص باتیں
گویا اقبال کے ہاں کانٹ چھانٹ اور تنقید و تنقیص کلام کا کوئی خاص اہتمام نہ تھا ۔اب تک کے بیانات سے ہمیں یہ تو پتہ چل گیا کہ اقبال کے احوال شعر گوئی کے وقت کم بیش ویسے ہی ہیں جو اکثر شعراء کے ہوا کرتے ہیں ۔ وہ آمد کے وقت ، ماہی بے آب کی طرح بے قرار ہونا۔۔۔ رات کی تنہائی میں اکثر آمد ہونا اور اپنے کتھارسس کے بعد مکمل پرسکون ہو جانا ۔تو پھر کیا چیز ہے جو اقبال کو اقبال عطا کرتی ہے۔ وہ چیز اقبال کے اندر اترے بغیر تلاش کرنا ناممکن ہے اور اقبال کے اندر کا حال علی بخش یا جاوید اقبال تو نہیں بتا سکتے۔
یہ بھی پڑھیے:
شعر گوئی کے دوران اقبال کے اندر کیا مدوجذر برپا ہوتا تھا آئیے انہی کے الفاظ میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں:
"جب شعر کہنے کی کیفیت مجھ پر طاری ہوتی ہے تو سمجھ لو کہ ایک ماہی گیر نے مچھلیاں پکڑنے کے لیے جال ڈالا ہے۔ مچھلیاں اس کثرت سے جال کی طرف کھینچی چلی آ رہی ہیں کہ ماہی گیر پریشان ہو گیا ہے۔ سوچتا ہے کہ اتنی مچھلیوں میں سے کسے پکڑوں اور کسے چھوڑوں۔۔۔ یہ کیفیت مجھ پر سال میں زیادہ سے زیادہ دو بار طاری ہوتی ہے، لیکن فیضان کا یہ عالم کئی کئی گھنٹے رہتا ہے۔اور میں بے تکلفی سے شعر کہتا جاتا ہوں۔ پھر عجب بات یہ ہے کہ جب طویل عرصے کے بعد یہ کیفیت طاری ہوتی ہے تو پہلی کیفیت میں کہا گیا آخری شعر، دوسری کیفیت کے پہلے شعر سے مربوط ہے۔ یا یوں کہنا چاہیے کہ یہ فیضان کے لمحے دراصل ایک ہی زنجیر کی کڑیوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔جب کیفیت ختم ہو جاتی تو میں ایک قسم کی تکان ، عصبی اضمحلال اور پژمردگی محسوس کرتا ہوں۔"
تو گویا ماہی بے آب اقبال نہیں کلام ہوا کرتا تھا جو اقبال کے گرد طواف کیا کرتا تھا ۔۔۔ یہاں سے اس اقبال کی جھلک نظر آنا شروع ہو جاتی ہے جو انہیں روایتی شعراء سے جدا کرتی ہے ۔اقبال ان فیضان سے بھرپور لمحات کی تفصیلات بتاتے ہوئے مزید فرماتے ہیں:
" ایک مرتبہ چھ سات سال تک مجھ پر یہ کیفیت طاری نہ ہوئی تو میں یہ سمجھا کہ خدا تعالیٰ نے مجھ سے یہ نعمت چھین لی ہے۔چنانچہ ایک لمبے عرصے تک تثر لکھنے پر توجہ کی۔یک بیک ایک روز پھر یہی کیفیت طاری ہو گئی۔ان لمحوں میں میری طبیعت ایک عجیب لذت محسوس کر رہی تھی۔بس ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اشعار کا ایک بحر مواج ہے کہ امڈا چلا آتا ہے۔ یہ کیفیت سرور و نشاط اتنی دیر تک قائم رہی کہ اس نے چھ سات سال کے جمود و تعطل کی تلافی کردی۔"
(روزگار فقیر، حصہ اول ص۔21-22)
یہ کیف ۔۔۔ یہ سرور۔۔۔ یہ فیضان اور وجدان کے لمحوں کا سکون۔۔۔ جس میں سرشار ہو کر اقبال لکھتے ہیں:
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی
کیا علامہ اقبال کو ایک دل سے لکھنے والا شاعر نہیں ثابت کرتا؟ حقیقت یہ ہے کہ اقبال کی شاعری ان کا عجز نہیں اعجاز ہے۔ ان کی فکر، ان کی سوچ ، ان کا فلسفہ اسی پیکنگ میں ان کو وصول ہوتا تھا اور انہوں نے نہایت دیانتداری سے وہ بنا ردوبدل کیے اسے ہم تک منتقل کر دیا ۔ وہ تو اپنی عقل کو اس عمل میں اس قدر بھی دخیل نہیں ہونے دیتے کہ اگر چھ سات سال عطا نہیں ہوا تو اختراع کریں بلکہ انہوں نے نثر کا رخ کر لیا اور جب دوبارہ عطا ہوا تو پھر لکھنا شروع کر دیا کہ ۔۔۔ سر تسلیم خم ہے۔۔۔جو مزاج یار میں آئے!