مستقبل
تیرے لئے میں کیا کیا صدمے سہتا ہوں
سنگینوں کے راج میں بھی سچ کہتا ہوں
میری راہ میں مصلحتوں کے پھول بھی ہیں
تیری خاطر کانٹے چنتا رہوں گا
تو آئے گا اسی آس پہ جھوم رہا ہے دل
دیکھ اے مستقبل
اک اک کر کے سارے ساتھی چھوڑ گئے
مجھ سے میرے رہبر بھی منہ موڑ گئے
سوچتا ہوں بے کار گلہ ہے غیروں کا
اپنے ہی جب پیار کا ناتا توڑ گئے
تیرے بھی دشمن ہیں میرے خوابوں کے قاتل
دیکھ اے مستقبل
جہاں کے آگے سر نہ جھکایا میں نے کبھی
سفلوں کو اپنا نہ بنایا میں نے کبھی
دولت اور عہدوں کے بل پر جو اینٹھے
ان لوگوں کو منہ نہ لگایا میں نے کبھی
میں نے چور کہا چوروں کو کھل کے سر محفل
دیکھ اے مستقبل
زلف کی بات کئے جاتے ہیں
دن کو یوں رات کئے جاتے ہیں
چند آنسو ہیں انہیں بھی جالبؔ
نظر حالات کیے جاتے ہیں