مسلم سپین: فلکیات، ریاضی اور فلسفے میں مسلمانوں نے دنیا کی امامت کیسے کی؟
مسلمانوں کو اسپین فتح کئے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ اسپین علوم و فنون کی سر زمین بن گیا ۔ یہاں علم دوستی ، فکری آزادی ، اور مذہبی رواداری کو فروغ ملا ، جس کے باعث ہر قسم کے علوم و فنون کو ترقی کا بھرپور موقع ملا ۔ یہاں تفسیر ،علوم القرآن ، علوم الحدیث ،فقہ ، فلسفہ ، کلام ، تصوف و احسان ، تاریخ و جغرافیہ ، نباتات و حیوانات ، طبیعیات و کیمیا ، طب و جراحت اور طبقات الارض و فلاحت وغیرہ علم و فن کے ہر میدان میں بیش بہا کارنامے انجام دیے گئے اور زندگی کے تقریباً تمام ہی شعبوں کو بھر پور ترقی ملی ، اسی طرح علوم و فنون کے مختلف میدانوں میں ایسے لوگ پیدا ہوئے جن کو علمی تاریخ میں ایک عظیم مقام حاصل ہوا ، چنانچہ تفسیر میں ابن احمد قرطبی ، ابن عربی مالکی اور ابن عطیہ ، حدیث میں یحیی بن یحیی لیثی ، بقی بن مخلد اور ابن عبد اللہ، فقہ میں ابن حزم ، یحیی بن یحیی، ابو اصبغ اور ابن وضاح، اصول فقہ میں شاطبی ، سیرت و مغازی میں ابن عیاض ، تاریخ میں ابن قوطیہ ، لسان الدین ابن الخطیب اور ابن خلدون ، فلسفے میں ابن رشد ، ابن باجہ ، ابن طفیل اور ابن میمون، طبیعیات میں ابن جابیرول ، علوم تقابل ادیان میں ابن حزم ، طب و جراحت میں زہراوی ، ابن زہر اورابن البیطار ، جغرافیہ و سیاست میں شریف ادریسی اور ابن جبیر ، ریاضیات میں مسلمہ مجریطی اور زرقالی وغیرہ ماہرین علم و فن پیدا ہوئے ۔ذیل میں ہم صرف فلکیات، ریاضی اور فلسفے کا تذکرہ کررہے ہیں:
فلکیات یا آسٹرونومی:
اسپین میں فلکیات کا مطالعہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ دسویں صدی عیسوی میں شروع ہوا اور بہت سے اہم ماہر فلکیات پیدا ہوئے ۔ اس عہد میں مسجدوں کے مینارے بطور رصد گاہ استعمال ہوتے تھے ، اسی مقصد کے تحت مشہور ریاضی داں جابر بن افلح کی نگرانی میں مسجد اشبیلیہ سے متصل 1190 میں مینار اشبیلیہ تعمیر کیا گیا۔ان رصد گاہوں میں اسپینی مسلمانوں نے بہت سے فلکیاتی آلے تیار کئے اور جدولیں مرتب كیں۔ ان جدولوں کو زیج کا نام دیا گیا ، اہل اسپین کے تیار کردہ اصطرلاب کو یورپ نے بارہویں صدی تک استعمال کیا ۔ اصطرلاب کے فن پر بہت سے ماہرین نے کتابیں لکھیں ، مگر اس کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ شکل ابو اسحاق زرقالی نے ایجاد کی ۔ اس کے علاوہ علی بن عیسی اصطرلابی نے آلہ سدس Sextant ایجاد کیا، جس سے زاویوں کی پیمائش کی جا سکتی تھی ۔
اسپین کے مسلم دور حکومت میں فلکیات و نجوم کے جو ماہرین پیدا ہوئے ، ان میں خاص طورپرمسلمہ مجریطی قرطبی ، ابو اسحاق الزرقالی طلیطلی اور جابر بن افلح اشبیلی قابل ذکر ہیں ۔ابو القاسم احمد بن عبد اللہ الغافقی بھی ایک ماہر فلکیات تھا ۔ ابو اسحاق الزرقالی نے ’’ الزیج الطلیطلی ‘‘ کے نام سے ایک جدول تیار کیا ،جو یورپ میں جد اول طلیطلہ Toledian Tables کے نام سے مشہور ہے۔ زرقالی نے ایک فلکی آلہ بھی ایجاد کیا جو ’’ صحیفۂ زرقالیہ ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا ، یہ آلہ علم ہیئت میں ایک اہم ایجاد تصور کیا جاتا ہے۔ زرقالی کی اہم دریافت اس کا وہ نظریہ ہے جس میں اس نے بتایا کہ ستاروں کے مقابلہ اوج شمس حرکت پزیر ہے ، اس نے اس حرکت سے پیدا ہونے والی تبدیلی کی پیمائش بھی کی ہے ۔ زرقالی نے اپنی تصنیفات میں بعض معرکۃ الآراء نظریات بھی پیش کئے ہیں ، اس کی ایک تصنیف کا ترجمہ Trado dela lemina lossiete planets کے نام سے مشہور ہوا ہے ، یہ کتاب یوروپ کی کتاب Aequatorium planetarium کی پیش رو قرار دی جاسکتی ہے ، زرقالی کی تحریروں کے اثرات بعد کے ادوار میں بھی کیپلر اور دوسرے مغربی ہیئت دانوں پر نظر آتے ہیں ۔
حاصل یہ ہے کہ مسلم اسپین کے مشہور و معروف ہیئت دانوں کی کتابوں سے یوروپ میں وسیع پیمانے پر استفادہ کیا گیاان میں المجریطی، الغافقی، الزرقالی ، ابن افلح اور بطروجی وغیرہ شامل ہیں ۔ ان ہی کتابوں اور نظریات پر جدید علم فلکیات کی بنیاد رکھی گئی۔
ریاضیات (Mathematics) :
فلکیات کے ساتھ ریاضیات کو بھی اسپینی مسلمانوں نے خوب ترقی دی اور اسے یوروپ کی علمی بیداری کا ایک ذریعہ بنایا۔ ریاضی دانوں میں مسلمہ بن احمد المجریطی اور ابن السمح کے نام قابل ذکر ہیں ، المجریطی نے المعاملات کے نام سے ایک کتاب تصنیف کی جس میں تجارتی حساب و کتاب اور محصولاتیعنی ٹیکس سے بحث کی ہے ، نیز اس میں الجبرا اور ہندسہ کے طریقے بھی استعمال کیے گئے ہیں ۔
مجریطی نے شاگرد ابن السمح نے بھی ’’ المعاملات‘‘ ہی کے نام سے ایک کتاب مرتب کی۔ پھر ایک اورکتاب اعداد کے موضوع پر ’’حساب الھوائی ‘‘ کے نام سے تحریر کی۔ابن السمح کی تحریروں کا مطالعہ الفانسو دہم کے یہودی درباری دانشوروں نےبغور کیا ۔مجریطی کا ایک شاگرد الکرمانی ریاضی میںجامع انسائیکلو پیڈیائی تحریروں کا بڑا مصنف تھا ۔ مجریطی کے دوسرے شاگردوں میں ابو القاسم اصبغ اور ابو القام احمدشامل هیں۔انهوں نے فلکیات اور ریاضی کے موضوع پر ہندوستانی مأخذ ’’ سند ہند ‘‘ کا ترجمہ کیا۔ ماہر فلکیات جابر بن افلح نے الجبرا ایجاد کیا ، علم المثلث سے متعلق اپنی کتاب میں اس نے بہت سے نئے فارمولے اور اصول پیش کئے ہیں جن کو بعد کے ریاضی دانوں نے سراہا ، رابرٹ بریفالٹ ریاضی میں مسلمانوں کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ :
’’ مسیحی مغرب کا اعلٰی ترین علم ریاضی اس سے آگے نہ بڑھ سکا کہ وہ قاعدہ ثلاث کا استعمال (اور وہ بھی دشواری کے ساتھ ) کر لیا کرتے تھے ( جو آج کل ہمارے کنڈر گارڈن اسکولوں میں چھوٹے بچے استعمال کرتے ہیں ) لیکن مسلمانوں نے صفر کا استعمال رائج کر کے ترسیم اعداد کے نظام اعشاریہ کو مکمل کر دیا ، انھوں نے الجبرا ایجاد کیا اور اسے چوتھے درجے کی تعدیلات کے حل تک پہنچا دیا ، انھوں نے علم مثلث کا استعمال شروع کیا اور یونانیوں کے وتر کی جگہ جیب زاویہ اور مماس کو ترجیح دی ، اس طرح انھوں نے انسانی تحقیق و تجسس کی قوتوں میں ہزار گنا اضافہ کیا‘‘۔
فلسفہ (Philosophy):
مسلم اسپین میں فلسفہ کا پہلا عالم محمد بن عبد اللہ بن سیرۃ قرطبی 883-931تھا ، اسی طرح سلیمان ابن جابیرول 1021-1058 کا شمار بھی اسپین کے ابتدائی فلسفیوں میں ہوتا ہے ، اسے اسپین میں نو افلاطونی فلسفے کا پہلا معلم کہاجاتا ہے، فلسفہ کے موضوع پر اس کی اہم کتاب ’’ینبوع الحیات ‘‘ ہے۔ بارہویں صدی عیسوی کو مسلم اسپین میں فلسفیوں کا سنہری دور کہا جاسکتا ہے کیوں کہ اس صدی کے اسپین میں بہت سے عظیم فلسفی پیدا ہوئے ، ان میں ابن باجہ (1058-1138) قابل ذكر هے، جس کا پورا نام ابو بکر محمد ابن یحیی ابن باجہ تھا، یہ فلسفی سائنس داں ، طبیب ، موسیقار ہونے کے ساتھ ساتھ ارسطو کا بہت بڑا شارح تھا ، ابن باجہ نے فلکیات اور طب پر اہم کتابیں لکھیں، لیکن سب سے اہم اور مشہور تصنیف ’’ تدبیر المتوحد ‘‘ ہے جو فلسفہ کے موضوع پر ہے ۔
اس میدان میں دوسرا اہم نام ابو بکر محمد بن عبد الملک بن طفیل کا ہے، جو نو افلاطونی فلسفہ کا دوسرا معلم ہے ۔ اپنے فلسفیانہ افکار و خیالات میں ابن سینا کی پیروی کرتے ہوئے اس نے کہا کہ روح غیر مادی چیز ہے جو انسانی موت کے بعد بھی باقی رہتی ہے اور جسم کے ساتھ ہلاک نہیں ہوتی ۔ فلسفہ کے موضوع پر اس کی اہم کتاب ’’ حی ابن یقظان ‘‘ ہے، جو ایک طرح کا فلسفیانہ رومانس ہے، جس میں ادبی چاشنی کے ساتھ نو افلاطونی افكار Neo-Platonism کی تشریح کی گئی ہے۔ یعنی انسان کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ خارجی مدد کے بغیر خدا کی معرفت حاصل کر سکے ۔
فلپ کے۔ حٹی لکھتا ہے : ’’ابن طفیل کا شاہکار ایک اچھوتا فلسفیانہ افسانہ ہے ، اس افسانے کا بنیادی تخیل یہ ہے کہ فہم انسانی کسی خارجی عامل کی مدد کے بغیر عالم بالا کی آگہی حاصل کرسکتا ہے، اور رفتہ رفتہ اس پر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس دنیا کا دارو مدار ایک قادر مطلق ہستی پر ہے ‘‘۔
یہ قرون وسطی کے ادب کا با لکل اچھوتا اور نہایت دلکش افسانہ ہے ، اڈورڈ پوکاک نے 1671میں اسے پہلی بار لاطینی میں منتقل کیا ، پھر اس کے بعد یوروپ کی اکثر زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوا چنانچہ ولندیز ی زبان میں اس کا ترجمہ 1672 میں ، روسی زبان میں 1930میں اور اسپینی زبان میں 1931 میں ہوا ہے ۔ زمانہ وسطی کی غالبا ً سب سے زیادہ پر لطف اورطبع زاد Original کہانی حی ابن یقظان ہے۔
فلسفہ کے میدان میں مسلم اسپین میں زیادہ ممتازنام ابو الولید ابن رشد 1126-1198کا ہے ، انهیں یوروپ Averroesکے نام سے جانتا ہے ، جو فلسفہ اور طبیعیات میں استاد تصور کئے جاتے ہیں۔ابن رشد نے علم کے بہت سے شعبوں میں خدمات انجام دیں ، لیکن فقہ ، طب اور فلسفہ ان کی دلچسپی کے مضامین رہے ہیں ، ان میں بھی فلسفہ ان کا خاص میدان رہا ہے، وہ شارح ارسطو کے نام سے مشہور ہوئے ۔ فلسفہ کے موضوع پر ان کی کتابیں فصل المقال فیما بین الحکمۃ والشریعۃ من الا تصال، کشف الادلۃ اور تھافۃ التھافۃ معرکۃ الآراء تصانیف ہیں۔
مسلم اسپینی فلسفہ میں ایک اور اہم نام محی الدین ابن عربی 1164-1240 کا ہے ، ابن عربی نے فلسفیانہ افکار و نظریات کو ایک نیا رخ دیا او ر فلسفہ کی ایک نئی قسم سے لوگوں کو روشناس کرایا جسے متصوفانه فلسفہ کہاجاتا ہے ۔ فلسفہ کے موضوع پر ابن عربی کی اہم کتابوں میں ’’ فصوص الحکم ،اور فتوحات مکیہ‘‘ ہیں ۔ ابن عربی وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے فلسفہ میں وحدۃ الوجود کا نظریہ پیش کیا ، ابن عربی کے فلسفیانہ افکار و خیالات سے بعد کے بہت سے مشرقی و مغربی مفکرین متاثر ہوئے ۔ جن میں دانتے کا نام خاص طور پر قابل ذکر ہے۔