مشتاق بدستور زمانہ ہے تمہارا

مشتاق بدستور زمانہ ہے تمہارا
آنے سے فسوں خیز نہ آنا ہے تمہارا


لیلیٰ کی حکایت بھی حکایت ہے تمہاری
شیریں کا فسانہ بھی فسانہ ہے تمہارا


اس دل کی خبر تم سے زیادہ کسے ہوگی
انداز مگر بے خبرانہ ہے تمہارا


تم حسن مجسم ہو بلا شرکت غیرے
ناقابل تقسیم خزانہ ہے تمہارا


دل میں کوئی آ جائے تو واپس نہیں جاتا
دشوار یہاں سے کہیں جانا ہے تمہارا


تم سے متأثر ہیں نئے ہوں کہ پرانے
اسلوب نیا ہے کہ پرانا ہے تمہارا


کیوں روشنی و رنگ سے معمور نہ ہو دل
سنسان سہی آئنہ خانہ ہے تمہارا


سمجھایا بجھایا نہ کرو دل کو شعورؔ اب
کمبخت نے کہنا کبھی مانا ہے تمہارا