مشاعرے کی افادیت

یہ سوال مدتوں سے پوچھا جا رہا ہے کہ مشاعروں کی کوئی اہمیت اور افادیت ہے یا نہیں؟ ایسے سوال کاجواب’’ہاں‘‘، ’’نہیں‘‘ میں نہیں دیا جا سکتا اور اگر دیا جائےگا تو ہمارے ذہن کی کسی طرف رہنمائی نہیں کرےگا۔ تجزیہ کرکے اس کی ابتدا، عروج یا زوال پر نظر ڈالنا، اس کے وجود میں آنے کے سماجی یا تاریخی وجوہ کی جستجو کرنا ماضی میں اس سے فائدہ پہونچا یا نقصان، اس کی شکلوں میں جو تبدیلیاں ہوئیں، ان کے سماجی اور تاریخی اسباب کیا ہو سکتے ہیں، اس کی ضرورت کسی اور چیز سے پوری ہو سکتی ہے یا نہیں۔ ان تمام باتوں پر اچھی طرح دھیان دیے بغیر یہ فیصلہ نہیں کیا جا سکتا کہ آج کی زندگی میں مشاعرہ کی کیا اہمیت ہے۔


عام طور سے تو یہ ہوتا ہے کہ جو چیز اپنی افادیت کھو دیتی ہے وہ یا تو مٹ جاتی ہے یا شکل بدل کر نئے حالات سے مطابقت اختیار کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن کبھی کبھی بعض تہذیبی ادارے اپنی افادیت کھوکر بھی روایت کے سہارے چلتے رہتے ہیں۔ اس لئے مشاعروں کی تمام حیثیتوں کو نظر میں رکھتے ہوئے اس کی اہمیت و افادیت پر غور کیا جا سکتا ہے۔


اپنی موجودہ شکل میں نہ سہی، مشاعرہ صدیوں سے بعض ملکوں کی ادبی زندگی کا جزو رہا ہے، جو ایک خاص منزل پر پہونچ کر ایک تہذیبی ادارہ کی شکل اختیار کر گیا۔ دور جاہلیت میں عربی شعراء بازاروں اور میلوں میں اکٹھا ہوتے اور اپنے فخریہ اور عاشقانہ اشعار سناتے۔ عربی ادب کی کی کسی تاریخ میں ان اجتماعات کا حال دیکھا جا سکتا ہے، یہ شاعرانہ مسابقے اور مقابلے اس وقت کی عرب روح کی نمائندگی کرتے تھے۔ اکثر تو یہ اجتماعات فی البدیہہ نظم گوئی کے اکھاڑے بن جاتے تھے۔


بدیہہ گوئی ابھی کچھ دن پہلے تک بعض ملکوں میں پائی جاتی ہے، جہاں شاعر ایک مجمع کے سامنے کوئی قومی روایت اپنے ساز پر شروع کر دیتا اور سننے والوں کے دل پر ایسا جادو کرتا کہ وہ اس کے ساتھ ہنستے، اس کے ساتھ روتے اور بعض اوقات غیرمعمولی جوش سے بھر جاتے۔ ایسے اجتماعات کو موجودہ مشاعرے کے مفہوم میں مشاعرہ کہنا شاید درست نہ ہو لیکن اکٹھا ہوکر شعروشاعری سے لطف اندوز ہونے اور اپنے خیالات دوسروں تک پہو نچانے کے جذبے کا پتہ ضرور چلتا ہے۔ جب لکھنے پڑھنے کا رواج کم ہو، جب کتابیں آسانی سے دستیاب نہ ہو سکتی ہوں، اس وقت ایسے جلسوں کی تہذیبی، ادبی اور لسانی اہمیت کا اندازہ لگانا دشوار نہیں۔


ایران کی ابتدائی شاعری میں مشاعروں کا پتہ نہیں ملتا لیکن قصائد پر قصائد اور غزلوں پر غزلیں کہنے کا رواج شیخ سعدی کے زمانہ میں ہو چکا تھا۔ اس سے پہلے ہی شاعری دربار سے وابستہ ہو چکی تھی اور درباریوں میں جو مقابلے اپنی بقا کے لئے ہوتے ہیں، وہ شاعری کی دنیا میں بھی داخل ہو چکے تھے۔ معاصر شعراء کی چشمکیں اسی مقابلے کا نتیجہ تھیں۔ کسی شاعر کی نکالی ہوئی زمین پر طبع آزمائی کرکے اس سے بڑھ جانے کی کوشش کبھی شعر وادب کو فائدہ پہونچاتی تھی اور کبھی محض ’’مقابلہ برائے مقابلہ‘‘ بن کر رہ جاتی تھی۔ فارسی کے قدیم تذکرے (لب اللباب، خزانۂ عامرہ، آتش کدہ وغیرہ) ان کے بیان سے بھرے پڑے ہیں۔


باضابطہ طرحی مشاعروں کا پتہ پندرہویں صدی میں چلتا ہے۔ خاص طور سے شیراز اس کا مرکز تھا لیکن ایران کے دوسرے بڑے شہروں میں بھی ایسے شاعرانہ اجتماعات ہوتے تھے۔ ان مشاعروں کو کئی حیثیتوں سے عرب اجتماعات سے متمائز کیا جا سکتا ہے۔ سب سے اہم فرق یہ ہے کہ عرب مشاعروں میں قبائلی زندگی کی روح ظاہر ہوتی تھی اور ایرانؔ کے مشاعروں میں درباری زندگی کے لوازم نمایاں تھے۔ طرح کے مصرعہ پر غزلیں لکھنابھی اس تخلیقی عمل کی نفی کرتا ہے جو ایک آزاد سماج میں پنپتا ہے۔ ایرانی مشاعرے جاگیردارانہ تمدن کی قدروں کے حامل تھے۔ سولہویں صدی عیسوی تک ایران میں شاہی کی روایتیں مستحکم ہو چکی تھیں اور شعروادب پر اس کی مہر لگ چکی تھی۔ صوفی شعراء کو چھوڑکر جن میں سے بعض اس نظام زندگی اور انداز حکومت کو بہ خوشی قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھے، تقریباً تمام ادیب اور شاعر اس مذہب، اخلاق، قانون اور فلسفہ کی اشاعت کسی نہ کسی شکل میں کر رہے تھے جو جاگیردارانہ اور شاہی نظام کی بنیادوں پر وجود پذیر ہوئے تھے۔


یہ دور یورپ اور ایشیا کے براعظموں میں شہنشاہیت کے عروج کا دور تھا، فرق صرف یہ تھا کہ یورپ کا تمدن جاگیراداری کی حدوں کو توڑکر صنعتی دور میں داخل ہونے والا تھا لیکن ایشیا میں ابھی اس کا کوئی سوال نہ تھا، اس لئے ہندوستانؔ اور ایرانؔ کے فلسفہ ادب میں اجتماعی جدوجہد کی قوت مفقود تھی، یہی نہیں بلکہ ہندوستانؔ، ایران سے تہذیبی اثرات برابر قبول کر رہا تھا، یہاں جو سلطنتیں قائم ہوتی تھیں، علم و حکمت میں جو راہیں اختیار کی جاتی تھیں، شعروادب میں جو رنگ قبول کیے جاتے تھے، سب پر ایرانؔ کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔ چنانچہ سولہویں صدی میں جب مغل حکومت کا عروج ہوا تو ایرانی شعراء غیرمعمولی تعداد میں ہندوستان آئے، کچھ ایسے تھے جنھیں ہمایوں اور اکبر خانِ خانانؔ اور حکیم فتح اللہؔ خاں شیرازی کے درباروں نے اپنے یہاں جذب کر لیا۔ کچھ گولکنڈہؔ اور بیجاپور کی ادب دوست سلطنتوں میں پہونچ گئے۔


ہندوستانؔ میں فارسی شعروادب کا اسی طرح چرچا تھا جیسا خود ایران میں۔ یہاں بھی فارسی شعراء کا ایسا جمگھٹا تھا جس پر ایران رشک کی نگاہیں ڈالتا تھا۔ اکبرؔ اور خانِ خاناںؔ کی فیاضی نے مغل دربار کو شیرازؔ اور اصفہانؔ کا ہم پلہ بنا دیا۔ یہاں بھی مشاعرے ہونے لگے اور ان کا سلسلہ جاری رہا۔ سخاوت، مہمان نوازی، ادب دوستی، شعراء کا سرپرست کہلانے کی خواہش اور دربار کی رونق بڑھانے کے ملے جلے جذبات نے شعراء کی اہمیت بڑھا دی۔ انفرادی طور پر بعض بادشاہ شعروشاعری کے بہت دلدادہ نہیں تھے لیکن جو حالات پیدا ہو چکے تھے وہ اپنی روایات آپ بناتے ہوئے آگے بڑھتے جاتے تھے، چنانچہ محمد شاہی دور میں جب مغل سلطنت کا زوال شروع ہو چکا تھا، بہت سی رنگ رلیوں کے ساتھ مشاعروں کی رونق میں بھی اضافہ ہوا اور غالباً اسی زمانہ میں ریختہ کے مشاعرے بھی شروع ہوئے۔


سوداؔ کے کلیات کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت دہلی میں فارسی کے مشاعرے ہوتے تھے اور سوداؔ بھی ان میں حصہ لیتے تھے لیکن چونکہ اس وقت اردو زبان اچھی خاصی ترقی یافتہ زبان کی حیثیت اختیار کر چکی تھی اور فارسی محض روایتاً یہاں کی تہذیبی زندگی پر مسلط تھی، اس لئے بہت سے اردو کے شعراء منظر پر نمودار ہوئے اور اردو کے مشاعرے بھی ہونے لگے۔ میر تقی میرؔ نے نکات الشعراء میں کئی اردو مشاعروں کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ فارسی مشاعروں سے متمائز کرنے کے لئے لوگوں نے ریختہ کے مشاعروں کو’’مراختہ‘‘ کہنا شروع کیا۔


یہ مراختے بڑی باقاعدگی کے ساتھ دلی کے اہم ترین شعراء کے یہاں ہوتے تھے جن میں امراء وشرفا بھی شریک ہوتے۔ ویسے تو تذکرہ نویسوں نے بہت سے مراختوں کا حال لکھا ہے لیکن خان آرزوؔ، خواجہ میر دردؔ اور میر تقی میرؔ کے یہاں کے مراختوں کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ ان کی تفصیلات نکات الشعراء مخزن نکاتؔ، مجموعہ نغز، تذکرۂ ہندیؔ، ریاض الفصحاء اور طبقاتؔ الشعراء وغیرہ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ اگر غائر نظر سے ان کا مطالعہ کیا جائے تو ان سے نہ صرف اس عہد کے طرز شعر گوئی کا اندازہ ہوتا ہے بلکہ اردو زبان کی ترقی اور مقبولیت پر بھی ان مشاعروں سے روشنی پڑتی ہے۔


فارسی کے زوال اور اردو کی ترقی میں جس بات کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے، وہ یہ ہے کہ اردو فارسی کے نقش قدم پر چلنے میں فخر محسوس کرتی تھی۔ چند مقامی اور لسانی خصوصیات کو چھوڑکر اس نے بہت کچھ فارسی ہی سے لیا اور بعض ایسی ادبی روایتیں جو ملکی خصوصیات سے کوئی تعلق بھی نہ رکھتی تھیں، اردو ادب کے ڈھانچے میں داخل ہو گئیں لیکن یہاں ان کے ذکر کا موقع نہیں ہے۔ بہرحال مشاعروں کا رواج عام ہو گیا، بعض مشاعرے پابندی سے ہوتے، بعض تھوڑے دنوں کے بعد ختم ہو جاتے۔ اس کے دو خاص سبب تھے۔


اول تو دہلی کا انتشار، جو وہاں کے ارباب علم وفن کو دوسرے راستے دکھا رہا تھا۔ دوسرے شعراء کی باہمی معرکہ آرائیاں جو بعض اوقات گھناؤنی شکل اختیار کر لیتی تھیں اور یہ لَے اتنی بڑھتی تھی کہ مشاعرے درہم برہم ہو جاتے تھے۔ اس طرح کی بعض معرکہ آرائیوں کا ذکر قدیم تذکروں اور آبِؔ حیات میں ملتا ہے، کوئی اجتماعی یا قومی مقصد سامنے نہ ہونے کی وجہ سے یہ انفرادی جھگڑے ے بے روح زندگی کے خلا کو پر کرتے تھے۔ شعراء کی تعداد بہت ہو گئی تھی، مشاعرے بہت ہوتے تھے، امراء اور صاحبان ثروت اس شریفانہ تفریح کے لئے بڑے بڑے انتظامات کرتے تھے، شعراء کی آؤبھگت ہوتی تھی، مہمان نوازی اور تواضع کے مقابلے ہوتے تھے اور زبان کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا تھا۔


کچھ ہی دنوں میں دہلی کی حالت سقیم ہو گئی۔ اودھ، حیدرآباد، فرخ آباد، ٹانڈہ، عظیم آباد وغیرہ نے شعراء کو اپنی طرف کھینچا اور مشاعرے ملک کے ہر اس گوشے میں ہونے لگے جہاں درباری اور جاگیردارانہ زندگی کسی نہ کسی شکل میں اثرانداز ہوتی تھی۔ چنانچہ لکھنؤ نے اس معاملہ میں دہلی کو آنکھیں دکھائیں، یہاں بھی بہت بڑے پیمانہ پر مشاعرے شروع ہوئے اور دربار سے براہ راست ہمت افزائی ہونے کی وجہ سے ہر شب ’’شبِ نشاط‘‘ اور ہر گلی ’’کوئے ادیباں‘‘ بن گئی۔ مرزا سوداؔ کے لکھنؤ آنے کے بعد سے یہاں بھی مشاعروں کا زور ہوا۔ بعض امرا کے یہاں ایسے مشاعرے ہوتے تھے جن میں آصفؔ الدولہ خود شریک ہوکر اپنا کلام سناتے تھے۔ اس طرح مشاعرے ادبی زندگی کا ایک جزو بن گئے۔ اس کی روایتیں قائم ہو گئی جن کی خلاف ورزی اخلاق وتہذیب کی خلاف ورزی قرار پائی۔ مشاعرے کے سلسلہ میں حقیقتاً یہی چیز مطالعہ کی ہے۔


استادی اور شاگردی کا رشتہ، استاد کے ساتھ مشاعرے میں شاگردوں کی شرکت، باہمی رقابت، نکتہ چینی اور خردہ گیری، آگے پیچھے پڑھنے کا سوال، شمع کی گردش، نشست وبرخاست کے قاعدے، داد دینے کے طریقے، مشاعرے میں شرکت کے وعدے، میر مشاعرہ کی مہمان نوازی اور رتبہ شناسی کی آزمائش، یہ باتیں آہستہ آہستہ لوازم کی شکل اختیار کر گئیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مشاعرے اکھاڑے بن گئے، جہاں لوگ اپنے حریفوں کو زک دینے کے لئے باقاعدہ تیار ہوکر آتے تھے۔ اس میں شک نہیں کہ اس سے فائدہ بھی پہونچتا تھا۔ کوئی شخص اس وقت تک مشاعرے میں غزل سنانے کی جرأت نہیں کر سکتا تھا، جب تک کہ وہ اپنی زبان دانی پر کامل بھروسہ نہ رکھتا ہو۔ ایسی تمام شکلیں دو دھاری تلوار کی حیثیت رکھتی ہیں جو دونوں طرف کاٹتی ہے، اس طرح زبان منجھ کر صاف اور صحیح اور معیاری بھی بنتی ہے اور سند کے چکر میں پھنس کر محدود بھی ہوتی ہے۔


چنانچہ ان مشاعروں میں خیال، مواد اور جذبے کی طرف سے منھ موڑکر کچھ لوگ محض زبان کے حسن وقبح، صحت وسقم پر نگاہ رکھنے کو کافی سمجھتے تھے۔ طرحی مشاعروں میں خاص طور سے زیادہ اشعار تو محض قافیہ پیمائی ہوکر رہ جاتے تھے (اب بھی اکثر یہی ہوتا ہے) یا کسی ایک قافیہ کو معرکہ آرا قرار دے کر سارا زور اسی قافیہ پر صرف کر دیا جاتا تھا۔ اعتراض کے خوف سے لوگ نئی باتیں، نئے انداز میں کہنے سے ڈرتے تھے کیونکہ بعض بے باک سامعین تو برسرمشاعرہ ہی خیال اور بیان کی سند مانگنے لگتے تھے۔ اب وہ پہلی سی بات نہیں رہی لیکن ایسے روایتی مشاعرے اب بھی جاری ہیں۔


مشاعرے کی نوعیت میں اہم تبدیلی اس وقت ہوئی جب ہندوستان کا معاشی اور سیاسی نظام بدلا۔ جن لوگوں نے جدید ادب کی بنیادوں کا مطالعہ کیا ہے انہیں اس پر بالکل حیرت نہ ہوگی کہ مشاعرہ کا قدیم ادارہ بھی اس تبدیلی سے نہ بچ سکا۔ مولانا محمد حسین آزادؔ نے غدر کے بعد جدید ادبی تحریک کی داغ بیل ڈالی۔ اس کا سماجی اور معاشی تجزیہ تو وہ نہ کر سکے لیکن بدلے ہوئے حالات میں تغیر کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی، اس کا ذکر انھوں نے بڑی خوبی سے اپنے لکچروں میں اور نیرنگ خیالؔ کے دیباچہ میں کیا ہے۔ مولانا حالیؔ نے مقدمہ شعرؔوشاعری میں، حیات جاویدؔ میں، مجموعہؔ نظم کے دیباچے میں اور مختلف مقالات اور مکاتیب میں اس تحریک کی اہمیت اور نوعیت کی توضیح کی ہے۔ پنڈت کیفیؔ نے منشوراتؔ میں اس پر ایک دلچسپ مضمون لکھا ہے اور اس وقت کی شاعری میں جو نیا رنگ آرہا تھا اس کی تشریح کی ہے۔


انجمن پنجاب لاہور کے یہ مشاعرے بہت اچھے شاعر تو نہ پیدا کر سکے لیکن تحریک کی حیثیت سے تاریخ ادب میں ان کی بڑی اہمیت ہے۔ ان مشاعروں میں نظموں کے عنوان دیے جاتے تھے، لکچر ’’پڑھے‘‘ جاتے تھے اور شاعری کو زندگی کے قریب لانے کی کوشش کی جاتی تھی۔ ان مشاعروں کو عہد آفریں اس لئے کہا جاتا ہے کہ ان میں مشاعروں کی قدیم روایات سے تھوڑی بہت بغاوت کی گئی تھی لیکن یہ سلسلہ بہت دنوں تک قائم نہ رہ سکا۔ بعد میں یہاں بھی ’’طرح‘‘ دی جانے لگی اور ان کی حالت غزل کے عام مشاعروں کی سی ہو گئی۔ یہ اصلاحی مشاعرے بہت کامیاب نہیں ہوئے، اس کا اصل سبب ہندوستان کا آہستہ رو تغیر ہے۔


بیسویں صدی میں مشاعروں کی نوعیت تھوڑی بدلی، مناظمے اور مغازلے کبھی کبھی الگ اور کبھی ایک ساتھ ہونے لگے۔ طریقہ نشست اور ترتیبِ شعراء میں وہ پہلی سی سختی نہ رہی لیکن زیادہ تر مشاعرے کی قدیم روایتیں قائم رہیں۔ کبھی کبھی اصلاح کی کمزور آوازیں اٹھیں اور دب گئیں، کبھی خود شعراء کو اس بات کا احساس ہوا اور انھوں نے تبدیلی چاہی لیکن حقیقت یہ ہے کہ آہستہ آہستہ مشاعرہ محض تفریح کی چیز بن کر رہ گیا۔ اردو شعراء میں خاص طور سے سیمابؔ اکبرآبادی نے مشاعروں کی بےاثری اور غیرسودمندی کی طرف اشارے کئے اور ایک موقع پر تو یہاں تک کہا کہ اگر مشاعروں سے ترویج زبان کا فائدہ نہ ہوتا تو میں مشاعروں کے بند کر دینے کا موئد ہوتا۔ انھوں نے اپنے متعدد خطبات صدارت میں مشاعروں کی بدنظمی پر بے لاگ تنقیدیں کیں اور جن باتوں پر خاص طور سے زور دیا، وہ یقینا ًقابل توجہ ہیں کیونکہ گو مشاعروں کی دل کشی کی وجہ سے مشاعروں کے رواج میں کمی نہیں ہوئی لیکن ان کی حیثیت تفریحی جلسوں سے زیادہ نہ رہی۔


سیمابؔ اکبرآبادی نے مناظموں کے رواج پر زور دیا۔ مبتدیوں کے مشاعرے میں شریک ہونے کی مخالفت کی، مصرع طرح کی پابندی ہٹانا چاہی، عدم پابندی اوقات کا شکوہ کیا۔ مشاعروں میں وقت کا خیال ہی نہیں رکھا جاتا، طوالت وقت اور بسیار خوانی سے اظہار اختلاف کیا، بے جاداد اور بالکنایہ جملوں اور تعریضوں کے انسداد کا نعرہ بلند کیا اور اس بات پر زور دیا کہ جب تک ادب دوست اور سخن شناس حضرات مشاعروں میں شرکت نہیں کریں گے، مشاعرے کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ان تجاویز کی خوبی یہ ہے کہ یہ نہ صرف مناسب ہیں بلکہ قابل عمل بھی ہیں۔


بعض دوسرے شعراء نے بھی مشاعروں کے غیرسنجیدہ اور بےاثر وجود کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ خاص طور پر ظریفؔ لکھنوی کا ذکر کیا جا سکتاہے جنھوں نے اپنی مشہور نظم ’’شعر آشوب‘‘ میں مزاحیہ اور طنزیہ پیرایہ میں مشاعروں اور شعراء کی گری ہوئی حالت کا نقشہ کھینچا ہے، ان تمام باتوں سے جو چیز یقینی طور پر طے ہو جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ مشاعرے اپنی موجودہ صورت میں اپنی اہمیت اور افادیت بہت کچھ کھو چکے ہیں اور انہیں وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ بنانے کے لئے بعض اہم تبدیلیوں کی ضرورت ہوگی بلکہ اس نقطۂ نظر ہی کو بدلنا ہوگا جس کے ماتحت اب تک مشاعرے منعقد کئے جاتے تھے۔


فلسفۂ جدید کا یہ عام اصول ہے کہ جب کسی ملک کا معاشی اور سیاسی نظام بدلتا ہے، یعنی جب وہ سماجی بنیادیں بدلتی ہیں جن پر فکرونظر کی عمارت قائم ہے تو تہذیبی ادارے بھی بدل جاتے ہیں۔ اس تبدیلی کی نوعیت، تہذیبی ادارے کی افادیت اور اہمیت پر مبنی ہے۔ کسی روایت کا زندہ رہنا، اس کی افادیت پر منحصر ہے اور افادیت کی بہت شکلیں ہوتی ہیں۔ اردو مشاعروں کی تاریخ پر مختصراً نگاہ ڈالی جا چکی ہے، اس سے فائدہ ضرور ہوا ہوگا کہ تفریحی اہمیت کے علاوہ مشاعرے کی مجلسی، اجتماعی، لسانی، اعتقادی اہمیت بھی ہے۔ مختلف قسم کے لوگوں کے لئے یہ اہمیت مختلف روپ دھار لےگی، لیکن مجموعی طور پر مشاعروں نے یہ خدمت انجام دی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ آج مشاعروں سے یہ ضرورتیں پوری ہوتی ہیں یا نہیں؟ اس کی رسمی حیثیت میں زندہ عناصر کے پہلو ہیں یا نہیں؟ اس تہذیبی ورثہ کو پوری طرح قبول کیا جانا چاہئے یا ترمیم کے ساتھ۔ لیکن ان کے جواب پر غور کرنے سے قبل چند اور پہلوؤں پر بھی نگاہ ڈالنا ضروری ہے۔


اس وقت کئی طرح کے مشاعرے ہوتے ہیں،


(۱) طرحی مشاعرے، جن میں ایک یا ایک سے زیادہ طرحیں دی جاتی ہیں، کبھی طرح کی پوری پابندی کی جاتی ہے کبھی غیرطرحی غزلیں، طرحی غزلیں ختم ہو جانے کے بعد پڑھا دی جاتی ہیں۔


(۲) غیرطرحی مشاعرے، جن میں زیادہ تر شعراء اپنی پچاس دفعہ کی پڑھی ہوئی اور چھپی ہوئی غزل سنا کر نئی غزل لکھنے کی زحمت سے بچ جاتے ہیں۔ اکثر تو ایسے موقع پر یہ بھول جاتے ہیں کہ انھیں سامعین کو وہ غزل کئی بار سنائی جا چکی ہے۔ جو غزل ایک دفعہ پسند کرلی جاتی ہے، وہ بار بار دہرائی جاتی ہے۔


(۳) خالص نظم کے مشاعرے، جن میں کبھی کبھی موضوع بھی دے دیے جاتے ہیں جن کی پابندی کبھی کی جاتی ہے کبھی نہیں کی جاتی۔ نظم کا موضوع بھی مشاعرے کی سماجی اور سیاسی حیثیت کا تعین کرتا ہے۔ بعض انجمنوں کے مشاعرے ہوتے ہیں جو اس انجمن کے مقصد کی نمائندگی کرتے ہیں۔


(۴) ادھر کچھ دنوں سے سرکاری اور نیم سرکاری مشاعروں کا رواج بھی ہو گیا۔ جن میں حکومت اپنی وفاداری کا ثبوت فراہم کرنے کے لئے جدید طرز کے قصیدے لکھواتی ہے۔


(۵) بعض مشاعروں میں محض چند ہم خیال اور ہم رنگ شاعر بلائے جاتے ہیں تاکہ کوئی خاص مقصد پورا ہو سکے۔ میلوں ٹھیلوں میں، سیاسی اور سماجی جلسوں میں بھی مشاعرے ہوتے ہیں لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ خالص ایک رنگ کے مشاعرے بہت کم ہوتے ہیں۔ غزل، نظم، ادب، طنزومزاح، سیاست، مذہب، فلسفہ اور اصلاح تمام چیزیں ایک دوسرے میں گڈمڈ ہو جاتی ہیں، گو اس سے تنوع پیدا ہوتا ہے لیکن سنجیدگی ختم ہو جاتی ہے۔ طرحی مشاعروں میں قافیہ اور مضمون کی یکسانیت تکلیف دہ حد تک ناخوشگوار فضا پیدا کر دیتی ہے، خاص طور پر جب پڑھنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہو اور غیرمنتخب۔


مشاعرے میں شریک ہونے والے مختلف المذاق ہوتے ہیں۔ کوئی کسی خاص شاعر کو سننے کے لئے آتا ہے، کوئی ادبی ذوق کا اکسایا ہوا، کوئی شاعر کے لئے مترنم آواز ضروری سمجھتا ہے، کوئی اشعار کے حسن وقبح کے جانچنے میں کسی خارجی عنصر (مثلاً شاعر کے پڑھنے کا طریقہ) کو شامل کرنا پسند نہیں کرتا، کوئی صرف تفریح کا دلدادہ ہوتا ہے، کوئی مشاعرہ کو اہم ادبی اور مجلسی ادارہ سمجھتا ہے اور اس کی اس حیثیت کو نمایاں دیکھنا چاہتا ہے۔


ظاہر ہے کہ یہ اور ایسی ہی دوسری باتیں سامعین کو مختلف گروہوں میں تقسیم کر دیتی ہیں اور تاثر پذیری کے دھارے بدل جاتے ہیں، اس کش مکش میں تمام سامعین کو خوش کرنے کی کوشش فضول ہوتی ہے۔ اس لئے جس کی خواہش پوری نہیں ہوتی، وہ مشاعرے سے آسودہ نہیں ہو سکتا، منتظمین کی بدنظمی، وقت کی عدم پابندی، اچھے شعراء کا اعلان اور مشاعرے میں ان کا موجود نہ ہونا، یہ تمام باتیں مشاعروں کو ناکامیاب بناتی ہیں۔ بعض حضرات مشاعروں میں خطبۂ صدارت چاہتے ہیں، بعض چاہتے ہیں بزم شعروسخن میں نثر کی کیا ضرورت ہے، بعض لمبی غزلوں اور نظموں سے گھبراکر شاعر سے مقطع کا مطالبہ کرتے ہیں، بعض اپنے پسندیدہ شاعر کے علاوہ کسی اور کا کلام سننے ہی پر تیار نہیں ہوتے۔


ان تمام دشواریوں کا حل آسان نہیں اور موجودہ دور میں مشکل ہی سے کوئی ایسا مشاعرہ ہوگا، جس میں یہ صورتیں پیش نہ آتی ہوں، بلکہ اکثر تو مشاعروں میں پہونچ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مجمع میں زیادہ تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو شعروادب سے کوئی واسطہ نہیں رکھتے محض تفریحاً شریک ہو گئے ہیں۔ اس مجمع میں اگر شعروشاعر دونوں کی گت بنتی ہے تو تعجب کی کیا بات ہے۔


بہرحال ان خیالات کی روشنی میں یہ نتیجہ تو صریحی معلوم ہوتا ہے کہ مشاعرہ اپنی قدیم شکل میں بدلتے ہوئے ذہنوں کے لئے آسودگی کا سامان نہیں رکھتا، مشاعرہ کاسارا ماحول اپنی روایتی پابندیوں اور رسمی خصوصیتوں کے ساتھ جاگیردارانہ دور سے تعلق رکھتا ہے۔ ایسے دور سے جو مٹ رہا ہے اور جسے مٹ جانا چاہئے۔ اب مشاعرے کئی دن اور کئی رات تو کیا، ایک دن یا ایک رات بھی ’’چلائے‘‘ جائیں تو بہت معلوم ہوتے ہیں۔ آگے پیچھے کے لئے جھگڑے، آداب مشاعرہ کی محض آداب مشاعرہ کے لئے پابندی، نظم یا غزل کی قید، طرحی غزل پر اصرار، یہ تمام باتیں بے روح رسم پرستی معلوم ہوتی ہیں۔


آج مشاعروں سے کیا کام لیا جا سکتاہے؟ ہر شاعر کا کلام رسائل اور اخبارات میں شائع ہوتا ہے، مجموعے چھپ کر بازار آ جاتے ہیں، ریڈیو کے ذریعے بعض شعراء کو سننے کاموقع مل جاتاہے، ایسی حالت میں مشاعرے کی اجتماعی اور تہذیبی حیثیت ہی اہمیت رکھتی ہے لیکن یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ اب عوام میں کلچر اور ادب کی اشاعت بھی تمام جمہوریت پسندوں اور انسان دوستوں کا مقصد بن چکا ہے۔ اس لئے مشاعرے کو محض مخصوص سطح تک رکھنا موجودہ ضروریات کی روشنی میں اسے بیکار بنانا ہوگا۔ حالات بدل جانے کے باوجود مشاعروں میں دوسرے اجتماعات کے مقابلہ میں زیادہ رونق اور چہل پہل ہوتی ہے، اس لئے اس سے کام لینا ضروری ہے۔ اگر مزدوروں کے مشاعرے میں شرکت کی جائے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ عوام مشاعرے میں اپنے مطلب کی بات سننا چاہتے ہیں، انہیں تال سر اور موسیقی کی جستجو نہیں ہوتی، یہ تو متوسط طبقے کے مریض اور لذت پرست نکمے نوجوانوں کا جذبہ ہوتا ہے جو شاعر سے گانے کامطالبہ کرتا ہے۔ اچھا شعر اچھی طرح پڑھا جائے، دل نشیں انداز میں ادا کیا جائے تو ترنم سے پڑھنے کی ضرورت نہیں رہتی۔


اس کا یہ مطلب نہیں کہ جو لوگ اپنی نظمیں اور غزلیں ترنم سے پڑھتے ہیں وہ اسے ترک کردیں لیکن ہر قسم کی نظم کو بندھے ٹکے انداز میں پڑھتے چلے جانا نظم کی حقیقت کو برباد کر دیتا ہے۔ خیر یہ ایک ضمنی بحث ہے۔ اصل مقصد یہ ہے کہ وہ تمام شعراء جو شاعری کو افادی نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں، مجمعوں میں شاعری سے کام لینے کے قائل ہیں، لیکن مجمعوں میں نظمیں پڑھنا مشاعرے کی رسمی نوعیت سے مختلف ہے، اس لئے یہ کہنا پڑتا ہے کہ مشاعرے کی شکل موجودہ زمانے میں ضرور بدلےگی۔ مشاعرہ کسی بڑے نصب العین کی اشاعت کے لئے منعقد ہوگا۔ ہم خیال شعراء خاص قسم کے خیالات کی اشاعت کریں گے، وقت کا خیال رکھا جائےگا اور زبان عام فہم ہوگی، جب یہ ساری باتیں اکٹھا ہوں گی، اس وقت آج کا مشاعرہ کامیاب ہوگا، اسی وقت اس سے تہذیب کی اشاعت کا کام لیا جا سکےگا اور مشاعرے کی روایت اپنے بہت سے لوازم کھو کر بھی نئے حالات میں زندہ رہے گی۔