مسافر توگیا

کوئی ہے.....؟
آواز تودو.....
بھائی عبدالحمید.....
اے بھائی عبدالحمید..... میرے بھائی.....
دروازے کا پٹ کھلارہنے دو۔ میرابھائی آرہاہے، دیکھو سامنے شیشم تلے وہ بیٹھا وضوکر رہا ہے۔ میں کہتانہ تھا میراماں جایا ضرورآئے گا۔
حکیم جی، سردی شدیدہے، دروازہ بندکرلینے دیں۔ مؤذن بابا عزیز نے کہا۔ عزیز بابا..... دروازہ مت بھیڑ..... کھلا رہنے دے..... دروازے بند نہیں کرنے چاہئیں۔ یہ بند ہوجائیں تو گھروں میں چڑیلیں بسیراکرلیتی ہیں۔ بند دروازوں کے پیچھے جانے کیاہوتارہتاہے.....؟ مجھے خوف آتاہے بند دروازوں سے.....
عبدالحمید جب آخری بارحویلی سے نکلاتھا تودروازہ بندکرکے گیاتھا۔ میں اسی بند دروازے کا عذاب بوڑھی آنکھوں کی دہلیز پہ رکھے جی رہاہوں۔ کاش دروازے کی طرح میری آنکھیں بھی بند ہوجائیں۔ بند آنکھوں کو کون کھولنے آئے گا۔ کوئی نہیں، میں جی لوں گا..... میں مربھی گیا توشاید عبدالحمید کے انتظارمیں یہ آنکھیں کھلی رہیں۔ حویلی کے دروازے بندہوگئے تھے۔ یہ آنکھیں توکھلی رہیں، عزیزبابا دروازہ کھلارہنے دے.....
حکیم عبدالرحمن کی حالت دن بہ دن بگڑتی جارہی تھی۔ ضعیفی اورجوڑوں کے درد نے اسے چارپائی کا اسیرکردیا تھا۔ دن بھرطویل برآمدے میں بوسیدہ چارپائی پربیٹھے وہ خلا میں گھورتے رہتے۔ تکیے پرماتھا ٹیک کر نماز اداکرلیتے۔ قوت سماعت متاثرہونے سے وہ اونچاسننے لگے۔ ساٹھ سالہ سفید ریش عزیزبابا نے مسجد کے پہلو سے ایک ایک اینٹ اکھاڑ کرچولہا بنایا۔ لکڑیاں چن کر آگ جلائی اورحکیم جی کے لیے دلیہ بنانے لگا۔ حکیم جی چارپائی پربیٹھے بُڑبُڑاتے رہے۔
انوش دارو..... اچھا انوش دارو اِس سے معدہ درست رہے گا..... سفوف راحت کی پڑیا بھی معدے کے لیے اکسیر ہے..... سیاہ لمبے گھنے بال..... گیلے..... بارش کی بوندیں گررہی ہیں..... سفوف جواہر پانچ سوروپے تولہ ہے، میراکیا قصور ہے۔ عنبر اورکستوری خالص ڈالی ہیں۔ اجزاء مہنگے ہیں..... وہ زلفیں تھیں کہ شبِ دیجور..... جوارش جالینوس توطب میں صدیوں سے رائج ہے..... میں نے زکام کے لیے ایسا نسخہ تجویز کیا ہے، بس نہ پوچھیں..... سونف کا بھنبھل، اسے سستا اورمعمولی جان کر چھوڑنا نہیں..... اس میں خشخاش بھی ہے..... ایک اورنسخہ ہے زکام کا..... آدھ کلو بکری کا گوشت..... اس میں بیس بادام، چھوٹی الائچی، خشخاش اورتھوڑازعفران ڈال کر بھون لیں۔ سردیوں میں زکام کے لیے تیربہدف ہے..... ہائے میری طب کی کتابیں.....!
حکیم جی..... چپ رہیے، دلیہ بن رہاہے۔
آگ بجھنے لگی توعزیزبابا نے اورلکڑیاں چن کر آگ جلائی۔ گیلی لکڑیوں کے سلگنے سے دھواں دلیے میں شامل ہوتارہا۔ حکیم جی نے جیسے ہی دلیے کا پہلا چمچہ منہ میں ڈالا..... منہ بنا کربولے، اخ تھُو..... یہ دلیہ ہے..... عزیزبابا تم نے دھواں پکایاہے کہ دلیہ.....؟
نہیں کھانا تونہ سہی، یہ رہی لنگرکی دال اورروٹی.....
عزیزبابا نے دلیے کی پلیٹ اٹھا لی۔
مرچ زیادہ ہے دال میں اورمیں معدے کا مریض ہوں۔
حکیم جی یہاں آپ کا کون بیٹھا ہے؟ صبرشکرکیا کریں..... جو مل جائے کھالیاکریں۔
عزیز بابا..... میراایک کام کرو گے.....؟
کیا کام ہے.....؟
پیر جی سے کہو، میری عمرجارہی ہے۔ ہم مسافر ہیں مسافر..... گھڑی بھرکے مہمان۔
پیر جی سفرمیں ہیں، سوموارکو لوٹیں گے۔
ساری دنیا سفرمیں ہے۔ سب چلے جائیں گے..... کوئی نہیں رہے گا۔ ایک دن یہ کائنات بھی نہیں رہے گی..... یہ مسافر بھی چلاجائے گا۔
کون مسافر.....؟
میں مسافر..... عبدالرحمن..... جس کی روح میں آبلے ہی آبلے ہیں۔ میرے اندرماضی کا ناسورپل رہاہے۔ اندر سے گل سڑگیاہوں میں۔ میرے وجود سے لوگوں کو گھن کیوں نہیں آتی۔ شاید مجھے روح نے ڈھانپ رکھا ہے۔ نہیں رہے گی تومجھے اٹھا کر گڑھے میں ڈال آئیں گے۔ پیوندِ خاک ہوجاؤں گا۔ میں چلاگیا توکچھ بھی نہیں ہوگا۔ ساری کائنات کا نظام اسی طرح رواں دواں رہے گا۔ کسی ایک کے مرجانے سے کچھ بھی تونہیں بدلتا۔
عزیزبابا خاموشی سے حکیم جی کی باتیں سنتارہا..... وہ ان کا مزاج شناس ہوگیاتھا۔ پیرجی سفر سے لوٹے توحکیم جی نے ان سے کہا، میری عمرجارہی ہے، میں کوئی دم کا مہمان ہوں، کتنا نادان تھا میں، سوبرس کا سامان کیا اور پَل کی خبرنہ تھی۔ مرنے سے پہلے اس زمین پرایک سرائے، ایک چھت بناجاؤں، شاید میرارب مجھے وہاں عرش کا سایہ نصیب کردے۔ پیرجی میرے پاس نوے ہزارروپیہ ہے۔ میری کل پونجی آپ لے لیجیے اوردرویشوں کی قیام گاہ کے سامنے برآمدہ بنوادیجیے۔ عاقبت سنورجائے گی میری۔ یہ میری آخری خواہش ہے۔
اسی ہفتے برآمدے کی تعمیر شروع ہوگئی۔ بنیادیں اٹھائی گئیں۔ مستریوں کی کرنڈیوں کی آوازوں میں حکیم جی دن بھردھوپ میں چارپائی ڈالے تعمیردیکھنے میں مگن رہتے۔ برآمدہ مکمل ہوا توحکیم جی دن بھر تکیے پرسجدہ ریز رہے۔ تکیہ آنسوؤں سے بھیگتارہا۔ ان کی ویران اوربے چین روح بارش میں دھلتی رہی۔ انہیں لگا کہ زندگی بھرکی پریشانیاں اورپشیمانیاں دھل گئی ہیں۔
ہوا سردتھی..... عزیزبابا ایک درویش کی مدد سے حکیم جی کی چارپائی کمرے میں اٹھالایا۔ گیلی لکڑیوں کے سلگنے سے کمرے میں دھواں تھا۔ عزیز بابا نے دلیہ حکیم جی کے سامنے رکھا۔ ان کی آنکھیں نم ناک تھیں۔ اس نے اپنا بوڑھا ہاتھ بوڑھے کندھے پررکھا توحکیم جی کا پنجرہلنے لگا اورچشمے بہہ نکلے۔
عزیزبابا، میراکوئی نہیں، بہن نہ بھائی، رشتہ دار نہ عزیز۔ میری عمربھرکی کمائی یہی ایک برآمدہ ہے۔ میں اب سکون سے مرسکوں گا۔ عبدالحمید ضرورآئے گا، تم دروازہ کھلا رکھنا۔ اﷲ پیرجی کی عمردراز کرے.....
اگلی صبح حکیم جی کے کہنے پرچارپائی برآمدے میں بچھادی گئی۔ انہوں نے قرآن مجید کھولا۔
عزیزبابا حروف دھندلا کیوں رہے ہیں.....؟
عینک کے شیشے گدلے ہورہے ہیں۔
اچھا.....! عزیزبابا چائے توپلادو، آخری چائے۔ کل میں چلاجاؤں گا۔ مسافر کاسفر مکمل ہوگیاہے۔ پیرجی سے اجازت لی تھی نا..... کہ مجھے اپنے قبرستان میں تھوڑی جگہ دے دیں۔ شہرِ خموشاں بھی توایک آبادجگہ ہے..... دیکھو، کتنے لوگ وہاں رہتے ہیں۔ وہاں تنہائی کا احساس تونہیں ہوگا.....؟ ہمارے شہربھی توشہرِ خموشاں سے کم نہیں۔ دیوارسے دیوارجڑی ہے..... لیکن ہمسائے کو ہمسائے کی خبرنہیں..... یہاں اوروہاں کیا فرق ہوا.....؟ عزیزبابا بولو..... نا۔ تم بھی آنے میں جلدی کرنا۔ وہاں میں تمہارا انتظار کروں گا۔ مجھے کمبل اوڑھا دو، سردی لگ رہی ہے۔ آسمان سے فرشتے اتررہے ہیں.....
حکیم جی، صبرکیجیے۔ مایوسی کفر ہے..... عزیزبابا کی آنکھیں نم تھیں۔ صبرکیسے کیا جائے۔ عمربھرکی یادیں سامنے دست بستہ کھڑی ہیں۔ وہ کہی اور اَن کہی کا جواب مانگتی ہیں۔ ان یادوں سے کہو، اوٹ میں ہوجائیں۔ آخری لمحے تومجھے اذیت کی سولی پہ نہ لٹکائیں۔ ایک عورت کی خاطرمیں نے کتنی روحوں کے طاقوں میں رکھے چراغ اپنی نافرمانی اورہٹ دھرمی کی پھونک سے بجھادیے بابا..... اماں..... عبدالحمید، دلاس۔ میں نے کتنے دل توڑے..... مجھ غریب الدیارپرآج کوئی رونے والا بھی نہیں۔ عزیزبابا، مجھے جی بھرکے رولینے دے، میری موت پرکوئی نہیں روئے گا۔ مجھے اپنے مرقد پراپنے آنسوؤں سے چراغاں کرلینے دے۔
باہر سرد ہواکازوراوربونداباندی ہورہی تھی۔ رات تاریک اورخاموش تھی۔ حکیم جی کے اصرارپرکمرے کا دروازہ کھلارہنے دیاگیا۔ انہیں یقین تھا عبدالحمید ضرورآئے گا۔ گدلے آئینوں کے پیچھے شفاف آنکھوں میں امیدکی رمق باقی تھی۔
عزیزبابا لحاف لپیٹ کر سوگیا۔ جانے رات کا کون سا پہرتھا۔ عزیزبابا کی آنکھ کھل گئی۔ کمرے میں خامشی تھی۔ حکیم جی کے خراٹوں کی آواز نہیں آرہی تھی۔ اس نے اٹھ کر دروازہ بند کیا۔ ماچس تلاش کی اورچراغ جلایا..... چراغ بھڑکا اوربجھ گیا۔ چراغ دوبارہ روشن کرکے وہ حکیم جی کی چارپائی کے پاس آیا۔ وہاں خاموشی کے سوا کچھ نہ تھا۔ ڈرتے ڈرتے اس نے حکیم جی کو چھوا۔ وہ جاچکے تھے۔ کانپتے ہاتھوں سے اس نے لحاف ان کے چہرے پرڈالا..... گھڑی دیکھی اورمسجد کی راہ لی۔
جنازے میں گنے چنے افرادتھے۔ چند درویش اورمدرسے کے طالب علم۔ جسدِ خاکی جب لحدمیں اتاراگیا، شرینہہ کے درخت میں کوئی پرندہ رورہاتھا۔ قبرستان سے لوٹ کر بابا عزیز نے چولہا جلایا اوردیگچی اوپررکھ دی۔
(۲)
عبدالرحمن گلی میں سے گزررہاتھا۔ اس پربارش کی بوندیں پڑیں تو اس نے چونک کرآسمان کی طرف دیکھا۔ آسمان صاف تھا۔ بوندیں کہاں سے گریں.....؟ چوڑیاں کھنکنے کی آواز سن کر اس نے اوپردیکھا، کلثوم نے اپنے سیاہ بال جھٹکے تھے۔ بالوں سے برسنے والی بوندوں سے عبدالرحمن سوچوں کی رم جھم میں بھیگنے لگا..... کب تک..... آخرکب تک یہ چوری چھپے کی ملاقاتیں، کتنے برس گزرگئے۔ کلثوم میرے ساتھ پٹھوگرم کھیلتی اورچھتیں پھلانگتی جوان ہوگئی ہے۔ ہم کب تک سیڑھیوں میں آدھے چاند کی روشنی کے ساتھ پسینہ پسینہ ہوتے رہیں گے؟ کلثوم کو توڈربھی نہیں لگتا، کبھی انگلی مروڑ لیتی ہے..... کبھی بے شرمی سے گال پرچٹکی بھرکے بھاگ جاتی ہے..... اوپرسے رعب جھاڑتی ہے کہ میں بزدل ہوں۔ میں اسے کیسے سمجھاؤں، بابا کتنے سخت گیر ہیں..... ابھی کل ہی کہہ رہی تھی..... کچھ کرو، نہیں تومیں زہرکھالوں گی..... کہیں سچ مچ کچھ کر نہ بیٹھے..... پھر ہوگا کیا.....؟ بھائی عبدالحمید توکہہ رہاتھا..... وہ حویلی کے خواب دیکھ رہی ہے..... بھائی بھی بے وقوف ہے، اسے کیا خبر، محبت ہوتی کیا ہے.....؟ خواہ مخواہ ہم سے جلتاہے۔ آج میں ماں سے بات کروں گا.....
عبدالرحمن گھرپہنچاتواداس تھا..... اس کا ذہن کلثوم کی زلفوں کے حصارمیں تھا۔ بڑے حکیم جی کئی دن سے پریشان تھے۔ مطب سے لوٹ کر اہلیہ سے رات گئے تک یہی موضوع زیرِ بحث رہتا کہ بیٹے کو کیا روگ لگ گیاہے؟ پڑھائی سے اس کی طبیعت اچاٹ رہنے لگی ہے۔
رات کھانے کے بعد انہوں نے عبدالرحمن کو بلایا توان کی اہلیہ نے انہیں نرم لہجے میں بات کرنے کا مشورہ دیا۔
عبدالرحمن بابا کی پائینتی سرجھکا کر ناخن چباتارہا۔
آپ اندر چلئے، میں اپنے چاند سے خودبات کرلوں گی۔ حکیم جی اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ عبدالرحمن مجرموں کی طرح سرجھکائے خیالوں میں غرق رہا۔ اس کے کانوں میں ابھی تک چوڑیوں کی کھنک اورچہرے پرریشمی قطروں کے لمس کی ملائمت تھی۔ باہرمطب سے دھم دھم کی آوازآرہی تھی۔ دلاس اوکھلی میں جڑی بوٹیاں کوٹ رہاتھا۔ اس کی ماں نے ملائمت سے پوچھا..... بیٹا بول توسہی، کیا بات ہے؟ مجھے توہم راز بنالے، کیوں روگی بن گیاہے.....؟ تونے بن استری کبھی کپڑے نہیں پہنے تھے۔ تیری نزاکت ونفاست کیا ہوئی..... میرے لال، کہاں توسلوٹ بھرے بسترپرنہیں سوتاتھا اوراب اپنا لباس دیکھ۔ دیکھ توسہی، تیری صحت گرتی جارہی ہے۔
ماں..... مجھے کوئی روگ، کوئی بیماری نہیں..... سب وہم ہے آپ کا۔
پھر بھی..... میرے چندا، تیراچہرہ.....؟
میرے چہرے کو کیا ہے؟ میرے چہرے پرلکھی تحریرکس نے پڑھی اورسمجھی ہے.....؟ سمجھ بھی لیا توجواب کون لکھے گا.....؟ چہرے کی تحریروں کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔ چہرے صرف سوالات کی گزرگاہ ہوتے ہیں۔ راہوں میں آوارہ پھرنے والے بے گھر سالوں کو کبھی ٹھکانہ نہیں ملتا۔ آپ میرے سوالوں کا جواب کہاں سے خریدیں گے....؟ عبدالرحمن اپنے ذہن کی تختی پرلکھے سوالات ماں کو نہ سناسکا۔
صرف اتنا بولا۔
ماں..... مجھے..... مجھے..... کلثوم لے دے.....!
اس کی ماں نے سکون کا سانس لیا۔ بیماری کی تشخیص ہوجائے توعلاج آسان ہوجاتاہے۔ عبدالرحمن کو آہیں بھرنی پڑیں نہ کلثوم کو چناب میں کچاگھڑاڈالنا پڑا۔ پُرسکون لہروں پروقت نے فیصلہ لکھ دیا اوران کی شادی ہوگئی۔ رکتے وقت کی چال کسے معلوم تھی۔ گھوڑا کب چلے اورپیادہ کس سمت کو جائے۔ کھیل میں شاہ کو بھی مات ہوجاتی ہے۔ شطرنجِ زیست کے مہرے چلتے رہے۔
عبدالرحمن نے طب کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مطب سنبھال لیا۔ دلاس ان کا خاندانی ملازم تھا۔ دن بھرجڑی بوٹیاں کوٹتے، کُشتے کھرل کرتے اورمعجون بناتے گنگناتارہتا۔ اسے بہادرشاہ ظفر کا ایک ہی شعرازبرتھا..... اوکھلی کی دھم دھم میں وہ مغلیہ عہد کو بھی کھرل کرتارہتا۔
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
جو کسی کے کام نہ آ سکے میں وہ ایک مشتِ غبار ہوں
جڑی بوٹیوں کی نسبت سے اسے زندگی کی تلخیوں کے ذائقے بھی معلوم تھے۔ بڑے حکیم جی اورماں جی کی موت کے بعد اس نے حکیم عبدالرحمن کو زندگی کے نشیب وفراز سمجھانے کی کوشش کی لیکن بے سود..... حکیم عبدالرحمن کی جھڑکیوں میں نہ وہ کسی کی آنکھ کا نوررہتا نہ دل کا قرار۔ اوکھلی سے نکلنے والی آواز میں مشتِ غباربن کے آنسوپیتارہتا۔
حکیم عبدالرحمن کی طب کا دوردورتلک شہرہ تھا۔ لا علاج مریض لائے جاتے جو شفایاب ہوکر جاتے۔ ان کی خالص ادویہ کی دھوم تھی۔ مطب میں ہروقت جمگھٹارہتا۔ معاملات کی ترتیب حکیم عبدالرحمن نے دی۔ اس کی طبیعت میں تیزی اورقدرے تُرشی تھی۔ اسی تُرشی کے سبب اس کا بھائی عبدالحمید دل کے پھپھولے لے کر کنارہ گیرہوگیا۔ بے اولاد ہونے کی وجہ سے حکیم جی میں چڑچڑاپن سرایت کرنے لگا۔ گھر کا سوداسلف، ملازمین کی تنخواہیں اورطب کی آمدن کلثوم کے ہاتھ میں تھی۔ سارے معاملات وہ خود سنبھالتی تھی۔ بڑے حکیم جی روزانہ کی آمدن بینک میں جمع کرایاکرتے تھے۔ کلثوم نے بینک کی بجائے رقم گھرلاکرمیں رکھنے کا فیصلہ کیا۔ وہ عبدالرحمن کے حواس پرپوری طرح چھاگئی۔ حکیم جی اسی کے دماغ سے سوچتے اورفیصلے کرتے۔ ان کی مردہ سوچیں ذہن کے قبرستان میں دفن ہوگئیں۔ اس کے بھائی عبدالحمید نے اپنا الگ مکان لے لیا۔ وہ بھائی کے رویے پرکڑھتارہتا۔ اسے بھائی کے بے اولاد ہونے کے دکھ سے زیادہ کلثوم کی چالوں سے ڈرتھا۔ سمجھانے کی غرض سے عبدالرحمن سے جو بات بھی کہتا، چکنے گھڑے کی طرح وہ اس کے ذہن سے پھسل جاتی۔ اس نے بھائی کو کلثوم کے بھائیوں کی عیاری اورمکاری سمجھانے کی پوری سعی کی، لیکن کلثوم کے حسن میں ساری باتیں ماند پڑ گئیں۔ سورج اس دن سوا نیزے پرآیا اورزمین تانبے کی ہوئی جس دن حکیم جی نے حویلی کلثوم کے نام کرنے کا فیصلہ کیا۔ دلاس اورعبدالحمید نے پوری رات جاگ کرگزاردی، لیکن صبح دم وہ وکیل کو ساری کارروائی کرنے سے نہ روک سکے۔
عبدالحمید جس وقت حویلی سے نکلا، کلثوم دالان میں بڑے سے پیڑھے پرزلفیں پھیلائے بیٹھی تھی۔ اس نے زہرخند مسکراہٹ سے عبدالحمید کو دیکھا اورعبدالحمید ناگن زلفیں آخری بار دیکھ کر باہرنکل آیا۔
نہ کسی کی آنکھ کا نور..... نہ کسی کے دل کا قرار..... دھم دھمادھم اوکھلی..... دھم دھم..... جڑی بوٹیاں..... دھول، دھم دھم..... دلاس جب عبدالحمید سے گلے ملا توپھوٹ پھوٹ رویا۔ حکیم عبدالرحمن مطب میں مصروف تھا۔ گلی میں ایک کالی بلی عبدالحمید کا رستہ کاٹ گئی۔ وہ چونکا اورمڑکے دیکھے بغیرآگے بڑھ گیا۔
حکیم عبدالرحمن کو جوڑوں میں دردکی شکایت رہنے لگی۔ گھٹنوں کا درد سواہوگیا۔ تمام نسخے آزمادیکھے، لیکن درد بڑھتاگیا۔ جوڑوں کے درد کے ساتھ ساتھ کلثوم کی سردمہری کا درد ان کے دل میں رہنے لگا..... وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کلثوم کی گرم جوشی سرد پڑتی گئی۔ حویلی میں اس کے بھائیوں کی آمدورفت بڑھنے لگی اورسازشیں پلنے اورپروان چڑھنے لگیں۔ حکیم جی کی سوچیں کِرم خوردہ ہوگئیں۔ یہ سب کیسے ہوگیا؟ کیوں ہوگیا.....؟ اسی کیوں کا جواب تلاش کرتے ہوئے حکیم جی کھنڈرہوگئے۔ کلثوم توزلفوں کے ساتھ ساتھ جان چھڑکتی تھی..... اب تک کیوں.....؟ میں اس کی چالیں کیوں نہ جان سکا.....؟ سوالوں کے بھنورمیں حکیم جی ایسے پھنسے کہ کوئی نکالنے والا بھی نہ رہا۔ کلثوم نے حویلی بھائیوں کے نام کردی اورمیں خاموش تماشائی بنارہا۔ ہائے میری بے بسی.....
حکیم جی دالان کے ایک کونے میں چارپائی پربیٹھے رہتے۔ اپنے آپ سے الجھتے۔ ان کی عمرگزرنے لگی۔ دلاس کی دھم دھم تھم گئی۔ مطب میں کبھی کبھارکوئی مریض آتا۔
اس روز حکیم جی نے دلاس کو جڑی بوٹیاں لانے اورسفوف بنانے کو کہا..... بند کیجیے اپنی اس لاڈلی طب کو..... کھوٹا پیسہ تک گھرمیں نہیں آتا..... کلثوم بولی۔
تونے مجھے کس قابل چھوڑاہے.....
بڈھے مجھے الزام نہ دے..... میں نے تجھ سے ٹُوٹ کر محبت کی ہے۔
جھوٹ بکتی ہے تو.....
کلثوم کے طعنوں کا کینسرحکیم جی کی ہڈیوں میں سرایت کرنے لگا۔ وہ غصے سے کپکپارہے تھے۔ میں نے تمہیں کیا نہیں دیا۔ محبت، دولت، شہرت، حویلی، زیور..... اور..... تم..... تم نے مجھے کیادیا..... نفرت اورعیاری.....! دالان کے ایک کونے میں پڑاہوں، یہاں سے بھی نکال پھینک۔ اﷲ کی زمین بہت بڑی ہے کہیں توپناہ مل جائے گی..... تو..... تو..... جا، میں تجھے گالی بھی نہیں دیتا۔
بڈھے خبیث، دفع ہویہاں سے.....
کلثوم نے حکیم جی کو گھسیٹ کرباہرپھینکا اورکنڈی چڑھا لی۔
نہ کسی کی آنکھ کا نور..... دھم..... دھم..... دھمادھم..... نہ کسی کے دل کا قرار۔ دلاس چونکا..... اٹھ کر حکیم جی کو سنبھالا۔
دلاس..... دلاس..... مجھے پیرجی کے پاس چھوڑآؤ۔
(۳)
دلاس، کسی روز بھائی کو نہ مل آئیں.....؟
جی، ضرور چلیں گے..... دلاس کے آنسونکل آئے.....
لیکن چند دن ٹھہرجاؤ۔ مقدمے کا فیصلہ ہولینے دو۔ اﷲ کرے ہم مقدمہ جیت جائیں اورعبدالرحمن کو حویلی واپس مل جانے کی خوش خبری سنائیں..... عبدالحمید کے چہرے پراطمینان تھا۔
نہیں جی..... ابھی چلئے..... کتنا عرصہ گزرگیا ہے۔ وہ بیماربھی توتھے۔ ہم نے پلٹ کر خبرہی نہ لی۔ کیا سوچتے ہوں گے حکیم جی.....؟ دلاس کے آنسو بہہ رہے تھے۔ ایک باربھائی عبدالرحمن کا کارڈآیاتھا۔
اچھا..... کیا لکھاتھا.....؟
بہادرشاہ کا ایک شعر
کتنا ہے بدنصیب ظفرؔ دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
تیاری کیجیے جی..... دیر نہیں کرنی..... دلاس پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
مقدمے کا فیصلہ توہولے.....
چھوڑئیے جی..... فیصلہ ہوتارہے گا۔
اورہاں..... جوارش جالینوس، سفوف جواہر اورانوش داروضرورساتھ لے لینا۔ بھائی خوش ہوجائے گا۔ جانے وہاں اس کی گزربسرکیسے ہورہی ہوگی.....؟
قریبی اسٹیشن پراترکر انہوں نے ٹیکسی پکڑی اورگاؤں کی راہ لی۔ وہ عصرکے قریب پیرجی کی خانقاہ پہنچے۔ ایک درویش نے انہیں برآمدے میں بٹھایا، پانی پلا کر وہ چائے لینے چلاگیا تودلاس نے پوچھا۔
حکیم جی نظرنہیں آرہے؟
میرے خیال میں سورہے ہیں..... وہ دیکھو..... سامنے ان کا بکس رکھا ہے اورچارپائی کے ساتھ چپل بھی.... بس مغرب کا وقت ہورہاہے، خودجاگ جائیں گے۔ دونوں مطمئن ہوکرباتیں کرنے لگے..... اتنے میں درویش چائے لے آیا۔ پیالیوں میں چائے انڈیلتے ہوئے اس نے آواز دی..... عزیزبابا اٹھو، اذان دینے کا وقت ہوگیا ہے..... چادرسرکی، عزیز بابا اٹھا..... عبدالحمید اوردلاس نے چونک کر ایک دوسرے کودیکھا اورخوفزدہ آواز میں پوچھا۔
ہمیں توحکیم عبدالرحمن سے ملنا ہے۔
پاؤں میں چپل اڑستے ہوئے بابا عزیز نے کہا.....
عبدالحمید..... ’’مسافر توگیا‘‘.....!