مراد شکوہ نہیں لطف گفتگو کے سوا
مراد شکوہ نہیں لطف گفتگو کے سوا
بچا ہے پیرہن جاں میں کیا رفو کے سوا
ہوا چلی تھی ہر اک سمت اس کو پانے کی
نہ کچھ بھی ہاتھ لگا گرد جستجو کے سوا
کسی کی یاد مجھے بار بار کیوں آئی
اس ایک پھول میں کیا شے تھی رنگ و بو کے سوا
ابھرتا رہتا ہے اس خاک دل پہ نقش کوئی
اب اس نواح میں کچھ بھی نہیں نمو کے سوا
ادھوری چھوڑ کے تصویر مر گیا وہ زیبؔ
کوئی بھی رنگ میسر نہ تھا لہو کے سوا