مقدمہ شعر و شاعری پر چند باتیں

یادگار غالب کے دیباچے کی شروعات حالی نے اس بیان سے کی ہے کہ، ’’تیرہویں صدی ہجری میں جبکہ مسلمانوں کا تنزل درجہ غایت کو پہنچ چکا تھا اور ان کی دولت، عزت اور حکومت کے ساتھ علم وفضل اور کمالات بھی رخصت ہو چکے تھے، حسن اتفاق سے دارالخلافہ دہلی میں چند اہل کمال ایسے جمع ہو گئے تھے جن کی صحبتیں اور جلسے عہد اکبری و شاہجہانی کی صحبتو ں اور جلسوں کو یاد دلاتی تھیں۔ اگرچہ۔۔۔ اس باغ میں پت جھڑ شروع ہو گئی تھی، کچھ لوگ دلی سے باہر چلے گئے اور کچھ دنیا سے رخصت ہو چکے تھے، مگر جو باقی تھے اور جن کے دیکھنے کا مجھ کو ہمیشہ فخر رہےگا، وہ بھی ایسے تھے کہ نہ صرف دلی سے بلکہ ہندوستان کی خاک سے پھر کوئی ایسا اٹھتا نظر نہیں آتا، کیونکہ جس سانچے میں وہ ڈھلے تھے وہ سانچا بدل گیا اور جس ہوا میں انہوں نے نشوونما پائی تھی وہ ہوا پلٹ گئی۔‘‘


اس اقتباس میں سب سے زیادہ توجہ طلب بات یہ ہے کہ حالی ایک عجیب وغریب اندرونی تضاد کے شکار نظر آتے ہیں۔ ایک طرف وہ یہ سمجھتے ہیں کہ تیرہویں صدی ہجری میں مسلمان زوال کی آخری حد کو پہنچ چکے تھے اور مادی اور روحانی کسی بھی لحاظ سے وہ اس لائق نہیں رہ گئے تھے کہ انہیں ممتاز قرار دیا جا سکے۔ دوسری طرف حالی یہ دیکھتے ہیں کہ اس زمانے میں دہلی چند ایسے اہل کمال سے بھی آباد تھی جن کی صحبتیں عظمت رفتہ کا احساس جگاتی تھیں اور جن کے دیکھنے کا انہیں ہمیشہ فخر رہےگا۔ ایک مخصوص معاشرتی حال کے بار ے میں حالی کے تاثر کی یہ کیفیت ان کے پورے ذہنی سفر سے وابستہ رہی۔


معروضی طور پر جب وہ اپنے گردوپیش کا جائزہ لیتے ہیں تو ایک ساتھ بے اطمینانی اور طمانیت دونوں کے تجربے سے گزرتے ہیں۔ ذہنی، جذباتی، تہذیبی، علمی اعتبار سے اس عہد کا خلفشار اتنا نمایاں تھا کہ ستر پردوں میں بھی اسے چھپایا نہیں جا سکتا تھا۔ اقتدار، افکار، ایقانات کے تمام پرانے محور کھسکتے دکھائی دیتے تھے۔ وقت کے بہاؤ میں ہر شے بے ثبات، ہر سہارا ٹوٹتا ہوا نظر آتا تھا۔ پرانی تہذیب کے تمام ادارے ایسا لگتا تھا کہ بس پل دوپل کے مہمان ہیں۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ حقیقت بھی اتنی ہی روشن تھی کہ انڈومسلم تہذیب و ثقافت کی کا مرانیوں کانقطہ عروج سامنے تھا۔ غالب کی شاعری، سرسید، نذیر احمد، محمد حسین آزاد کی نثر، دلی میں علم وفن کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے اہل کمال کی یکجائی۔۔۔ غرضیکہ شاعر، ادیب، عالم، فقیہ، دست کاروں اور فنکاروں کی ایک کہکشاں تھی جو تاریکی کے ایک اندوہناک پس منظر میں بکھری ہوئی تھی۔


میرا خیال ہے کہ اردو شعر وادب کی پوری تاریخ میں بیسویں صدی اس لحاظ سے ایک خا ص معنویت اور امتیاز رکھتی ہے کہ ادب کی مختلف صنفوں کے بہت منتخب ترجمانوں کے نام اس سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ دور شاعری کا، تنقیدکا، علمی نثر کا شاید سب سے سنہرا دور تھا۔ مگر اسی دور میں اپنے آپ سے شکایتوں کا، ایک نئی سطح پر اپنے محاسبے کا، ایک گہری بے اعتمادی اور بےاطمینانی کا احساس بھی عام ہوتا تھا، اورجہاں تک اہل کمال کا تعلق ہے تودلی کے علاوہ بھی ادب اور ثقافت کے دوسرے مرکز مثلا ًلکھنؤ، حیدرآباد، عظیم آباد، اکبرآباد میں جابجا نگاہیں ٹھہرتی تھیں۔ کچھ نئے مرکز بھی سامنے آرہے تھے۔ ادب، صحافت، معاشرت اور تہذیب کی ایک نئی تاریخ مرتب ہو رہی تھی اور اس تاریخ کی فتوحات سے انکار کا کوئی جواز بہ ظاہر موجو د نہیں تھا۔


پھر یہ کشمکش کیسی تھی؟ دراصل اسی سوال میں حالی کے باطن میں موجود اس پر پیچ اضطراب کی پوری کہانی چھپی ہوئی ہے جس کا عکس ہم جدید ہندوستانی نشاۃ ثانیہ کے پورے منظرنامے میں دیکھتے ہیں۔ یہ زمانہ ایک ساتھ پوری اجتماعی بازیافت اور ماضی سے ہمارے اجتماعی انحراف دونوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ ہم اپنے آپ کو پانا بھی چاہتے ہیں، اپنے آپ سے بچنابھی چاہتے ہیں۔ ہم مغربی تمدن اور اس تمدن کی تہہ میں چھپے ہوئے افکار اور اقدار کے ایک نئے نظام کے مطابق اپنی صورتحال کو بدلنا بھی چاہتے ہیں اور افکار واقدار کے اس نظام سے ہمیں ڈر بھی لگتا ہے کہ یہ جھونکا کہیں ہمیں اپنی ہی زمین سے الگ نہ کردے۔ ہمیں قیام کی جستجو بھی ہے اورہم صرف ایک نئے سفر میں ہی اپنی نجات کا راستہ دیکھتے ہیں۔


اس زمانے کی تمام بڑی ادبی شخصیتوں یعنی کہ غالب، سرسید، نذیراحمد، شبلی، حالی، آزاد، ان سب کا ڈائلما یہی ہے۔ چنانچہ ایک ہمہ گیر روحانی پیچ وتاب اور ذہنی وجذباتی اضطراب کی تہہ سے غالب کی شاعری کا ظہور ہوتا ہے اور حالی کی تنقید کا بھی۔ ان دونوں کی حیثیت ایک مخصوص تہذیبی روایت کی Genius کے شناس نامو ں کی ہے۔ جس طرح غالب کی شاعری اور اس شاعری سے جھانکتے ہوئے پورے تخلیقی ذہن کوہم اس کی روایت سے الگ کرکے نہیں دیکھ سکتے، اسی طرح ہم مقدمہ شعروشاعری کوبھی نقدونظر، تجزیے اور محاکمے کی ایک روایت سے لاتعلق قرار دے کر اس کی معنویت کا صحیح تعین بھی نہیں کر سکتے۔ چنانچہ صرف ایک بدلتے ہوئے اجتماعی شعور کو غالب کی حسیت اور حالی کے تنقیدی تصورات کی تفہیم کا واسطہ سمجھ بیٹھنابہت بڑی غلطی ہوگی۔ دونوں کی حسیت اور اسلوب فکر کی تعمیر میں ان کے حال کی طرح ان کے اجتماعی ماضی کا بھی سرگرم حصہ رہا ہے۔ اوردونوں کے پس پشت اپنے آپ کو قبول کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ سے لڑنے اور انکار کرنے کا میلان چھپا ہوا ہے۔


سو، س بات پر حیران ہونا چاہئے کہ غالب ایک انتہائی روایتی صنف شاعری کے واسطے سے اتنی ہی تازہ کارحسیت کے نمائندے ٹھہرے اور حالی کے قلم سے اردو تنقید کی ایک نہایت اشتعال انگیز کتاب کا خاکہ مرتب ہوا۔ دونوں اپنی جگہ بے مثال ہیں۔ اسی لئے دونوں کی تفسیر و تعبیر کاسلسلہ بھی ختم ہونے میں نہیں آتا۔ جس طرح غالب کی شاعری ہمارے شعور کاایک مستقل حوالہ بن چکی ہے، اسی طرح حالی کی تنقید نے بھی اردو تنقید کی تاریخ کے سب سے اہم حوالے کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ مقدمہ شعر و شاعری کے ساتھ اتنے مسئلے جڑے ہوئے ہیں کہ ہم اسے تقریباً سو برس پہلے کی ایک کتاب کے طور پر نہیں بلکہ اپنے ذوق، اپنی جمالیات، اپنے طرز احساس و استدلال، حسی اور جذباتی تجربوں کو سمجھنے کی اپنی خاص روش، اپنے وجدان اور اپنے تخلیقی تناظر کی مستقل دستاویز کے طور پر دیکھتے ہیں۔


کچھ معنوں میں تویہ کہا جا سکتا ہے کہ اردو کی جدید تنقید خاصالمبا سفر کرنے کے بعد بھی ابھی تک مقدمہ شعر و شاعری کے قائم کردہ معیاروں اور حدوں کے آگے نہیں جا سکی ہے۔ مثال کے طور پر حالی کے یہاں شعور جذبے کو ملاکر آگہی کا ایک مجموعی سیاق بنانے کی کوشش، ان کے یہاں تخلیقی وجدان کو اپنے عہدکے حوالے سے دیکھنے کی کوشش یا اس بات کی کوشش کہ شاعری کے دائرہ کار اور عام اجتماعی سرگرمی کے دائرہ کار میں مطابقت پیدا کی جا سکے۔


اسی طرح حالی کا تنقیدی اسلوب، تنقیدی طریق کار، ان کا تجزیے کا انداز، ادب اور تاریخ و تہذیب کے امتیازات کو قائم رکھتے ہوئے بھی انہیں ایک دوسرے کا حوالہ بنانے کاا نداز۔۔۔ یہ تمام باتیں آج بھی مقدمہ شعر و شاعری کی ادبی مطالعے کے دستورالعمل کی سب سے نمائندہ دستاویز بناتی ہیں۔ ایک چھوٹے سے مضمون میں اتنی بہت سی باتوں کو سمیٹنا آسان نہیں ہے۔ اس لئے سردست میں اپنے آپ کو مقدمہ شعر و شاعری کے حوالہ سے حالی کے تنقیدی ذہن کی بات بس دو چار سوالوں کے جائزے تک محدود رکھوں گا۔


اس سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ حالی کی شخصیت جس ادبی کلچر کی فضا میں ابھری، وہاں حالی جیسی کئی بڑی شخصیتیں موجود تھیں۔ مثال کے طور پر ادب کی فہم کے معاملے میں شبلی کی حیثیت کسی بھی لحاظ سے کم تر نہیں تھی۔ مگر پھر بھی کوئی توبات تھی کہ مقدمہ شعر و شاعری کوشعر و ادب کے زندہ مباحث میں ایک مرکزی جگہ حاصل ہوئی اور اس کی اس مرتبت میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہی ہوتا گیا۔ چنانچہ صورت حال یہ ہے کہ تنقیدی اصولوں، معیاروں اور نظریات کی ہر گفتگو میں کسی نہ کسی بہانے حالی ہمارے سامنے آ موجود ہوتے ہیں۔


اختلاف اور اتفاق کی جتنی اور جیسی گنجائش مقدمہ شعر و شاعری کے حوالے سے نکلتی ہے، اس کی دوسری کوئی مثال نہیں اور اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ حالی نے تاریخ، تہذیب، معاشرت، انسانی تجربے اور انسانی مقاصد کے ایک بہت وسیع سیاق میں اپنے دلائل پیش کئے ہیں۔ ان کے دلائل اور مفروضات اور تخلیقی وتہذیبی مقاصد ہر نقطہ نظر رکھنے والے کے نظام احساسات میں ارتعاش پیدا کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ حالی کی بصیرتیں اپنی جگہ پر کہ اس طرح پر ان کے معاصرین کے بھی اپنے اپنے امتیازات ہیں، لیکن ان میں کوئی بھی۔۔۔ سرسید ہوں یا شبلی یا آزاد، حالی کی طرح ہمارے شعور کی ہم سفری کا اور ہمیں مسلسل اپنی طرف متوجہ رکھنے کا اہل نہیں ہے۔


اس کا ایک خطرناک نتیجہ بھی سامنے آیا۔۔۔ یہ کہ بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں نقادوں کا ایک ایسا حلقہ بن گیا جو حالی جیسی بصیرت سے عاری ہوتے ہوئے بھی اپنی بصیرت کو حالی کی بازگشت سمجھ بیٹھا۔ حالی جو اپنے بعد آنے والوں کے مقابلے میں بھی زیادہ کشادہ ظرف اور وسیع النظر دکھائی دیتے ہیں، تو اسی لئے کہ انہوں نے اپنے ماضی اور حال دونوں سے کسب نور کیا۔ انہوں نے شعر کی روایتی صنفوں کا بہت مذاق اڑایا، مگر صاف پتہ چلتا ہے کہ اپنے پیش روؤں کے سحر سے حالی نہ تو آزاد ہوئے تھے اورنہ ہونا چاہتے تھے۔ کچھ جی چاہتا نہ ہو تو دعامیں اثر کہاں، والی بات تھی۔


حالی کی ادبی بصیرت جس نے ہمیں بہت سے مسلمات کے خوف سے نجات دلائی، اپنی تمام تر تغیر پسندی کے باوجود نہ تو مشرق کی روایت سے منحرف ہوئی، نہ ہی اس نے کوئی ایسی دلیل قائم کی جس کی گواہی اس مشرقی شعریات کے مستند مآخذ میں نہ مل سکی۔ حالی جو بار بار ابن رشیق اور قدامہ کے حوالے دیتے ہیں تو صرف اس وجہ سے کہ مغربیت کے سیلاب میں بہہ جانے، ادب کی کسی اجنبی روایت یا نامانوس ضابطے کے سامنے سپر ڈال دینے کے الزام سے محفوظ رہ سکیں۔ بے شک، انہوں نے ادب کی تخلیق اور تفہیم کا ایک نیا ضابطہ متعین کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ یہ بھی صحیح ہے کہ انہو ں نے مذاق عام سے مفاہمت کی کوئی کوشش نہیں کی اور مروجہ ادبی کلچر کے ماحول میں نامقبول ہونے کے خطرات بھی اٹھائے۔ لیکن اس ساری تگ ودو میں حالی نے یہ بات ہمیشہ پیش نظر رکھی کہ انہیں اپنے استدلال کا جواز کسی نہ کسی سطح پر متقدمین کی تحریروں میں بھی ملتا ہے۔


دوسری اہم بات یہ ہے کہ مقدمہ شعر و شاعری کے ساتھ ہماری تنقید میں سوچنے کا عنصر پہلی بار اتنا نکھر کر سامنے آیا، اور سوچنے کا یہ اسلوب بھی کتنا جامع تھا۔ ماضی کے تجربے، حال کی آزمائشیں، مستقبل کے مطالبات اس کے دائرے میں سمٹ آئے۔ مقدمہ شعر و شاعری نے ایک طرف تو ہمیں یہ بتلایا کہ ادب کی تخلیق و تفہیم کا کوئی نیا نظام وضع کرنے والے کے لئے ضروری یہ ہے کہ اپنے ذہن کو ہمیشہ چوکس اور متحرک رکھے۔ اپنی روایت کو آنے والے دنوں میں مخفی امکانات سے جوڑ سکے۔ ادب کے فوری مقاصد اور دائمی مقاصد میں ایک نقطہ اتصال کی دریافت کر سکے۔ دوسری طرف حالی ہمیں یہ بھی بتاتے ہیں کہ کسی زندہ ادبی روایت کے معاملے میں ذہنی تعطل اورتن آسانی کے نتائج کس درجہ مہلک ثابت ہو سکتے ہیں۔ غلط بات سوچنا بھی اس سے بہتر ہے کہ کچھ نہ سوچا جائے۔


چنانچہ مقدمہ شعر وشاعری کے نقشہ افکار میں ہرچند کہ کئی ایسی باتیں بھی شامل ہیں جنہیں ہمار ا ذہن درست تسلیم نہیں کرتا۔ تاہم ان باتوں کی اہمیت مسلم ہے اور تاریخ و تہذیب کے کسی نہ کسی جبر، تبدیلیوں کے عمل میں کسی نہ کسی صورت سے ان کا سلسلہ جڑا ہوا ہے۔ ہم حالی سے یہ شکایت تو کر سکتے ہیں کہ بعض اوقات خیالوں سے وہ اس قسم کا کام لینا چاہتے ہیں جو دراصل معماروں اور کاریگروں کی سرگرمی کا حصہ تھا، مگر حالی کے عہد کی نفسیاتی، ذہنی اور اجتماعی آویزشوں کو دیکھتے ہوئے ان خیالوں کو موہوم نہیں قرار دے سکتے۔ حالی بہر حال اس امر میں پختہ یقین رکھتے تھے کہ اس عہد کی روحانی احتیاج گزرے زمانوں کی احتیاج سے مختلف تھی۔ سو دوکان تصور میں بھی کچھ نہ کچھ نئے مال کی ضرورت محض ایک مفروضہ نہیں تھی۔


بہ ظاہر تاریخ کی جدلیات کے ایک نئے تصور سے ہی مقدمہ شعر و شاعری میں ادب کی افادیت اور مقصدیت کے کچھ عامیانہ تصورات کو بھی در آنے کا موقع ملا۔ یہ تصورات جتنے عامیانہ تھے نہیں، اس سے زیادہ عامیانہ انہیں نقادوں کے ایک افادیت پرست گروہ کی تعبیر نے بنا دیا۔ مجھے اس لحاظ سے حالی خاصے ستم رسیدہ اور مظلوم بھی دکھائی دیتے ہیں کہ ان کے بعض مفسرین نے انہیں بیسویں صدی کی عقلیت پسندی اور سائنسی شعور کا نمائندہ بناکر ہی دم لیا۔ پنجاب بک ڈبو کی ملازمت اور انجمن اشاعت مفیدہ سے وابستگی کے علاوہ کچھ انگریز صاحبوں سے حالی کے ربط وضبط کو حالی کی عقلیت پسندی اور سائنسی شعور کی اساس مان لیا گیا۔


اس کا ایک عقبی پردہ چاہے موجود تھا، یعنی کہ اٹھارہویں صدی کے اواخر اور انیسویں صدی کے نصف اول کی اصلاحی تحریکیں، تعلیم گاہوں اور دفاتر سے فارسی کی عمل داری کا اختتام اور لارڈ میکالے کی رپورٹ میں شامل وہ تبصرے جن میں ہندوستان کے اجتماعی ورثے اورماضی کی دریافتوں کا بہت مذاق اڑایا گیا ہے۔ مزید برآں سرسید کی قیادت میں حالی کا یقین اور اردو خواں معاشرے میں اردو کے واسطے سے انگریزی ذہن اور زندگی پرمبنی معیاروں سے شغف وغیرہ۔


چنانچہ حالی کے معاصر مولویوں سے ہمارے معاصر سلیم احمد تک حالی کے ذہنی سفر اور مفلر کا جی بھر کے تماشا بنایا گیا۔ ان میں سے کسی کو اس تہذیبی ملال اور دردمندی کا دسواں حصہ بھی نصیب نہیں ہوا تھا، جس سے حالی کی نرم آثار اور متین شخصیت شرابور دکھائی دیتی ہے۔ ایک اجتماعی ذمہ داری کے احساس اور اپنی انفرادی بصیرتوں کو ایک معاشرتی مقصد کے لئے وقف کر دینے کی جیسی طلب ہمیں حالی کے یہاں نظر آتی ہے، اس میں ذہنی مبالغے اورجذباتی ابال کا عنصر بھی دراصل ایک مثبت اور تعمیری عجلت پسندی کا نتیجہ تھا۔ مگر حالی کے یہاں کوئی ادعانہیں۔ کوئی نمائش نہیں۔ طنز و تعریض کا کوئی انداز نہیں۔ کوئی مصلحانہ طمطراق نہیں۔ مقدمہ شعر و شاعری کا پورا آہنگ بہت متوازن اور معتدل ہے۔


اس کے علاوہ ہمیں اس نکتے کو بھی ملحوظ رکھنا چاہئے کہ حالی اپنی شاعری اور اپنے تنقیدی موقف کے قارئین کو مغربیت کی چھڑی سے ہانکنے یا آرائشی حوالوں سے مرغوب کرنے کی کوئی کوشش نہیں کرتے۔ وہ بار بار اپنی مشرقی بنیادوں میں چھپے ہوئے مآخذ کی نشاندہی کرتے ہیں۔ بھلائے ہوئے کچھ سبق یاد دلاتے ہیں اور اپنی ہی روایت میں اس روایت کو ایک نیا رخ دینے کا بہانہ ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ مغرب کو ان کے یہاں خود اپنی بازیافت کے ایک وسیلے کی حیثیت بھی حاصل ہے۔ مقدمے میں ان کی بعض نظموں مثلاً حب وطن اور مسدس مدوجزر اسلام میں اسی تصور کی تکرار ملتی ہے۔


حالی کو ہمارے زمانے میں جو ایک نئی قبولیت ملی، اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ ہم نے حالی کو ان کے تمام اوصاف کے ساتھ اپنے شعور کا حصہ بنایا ہے۔ نئی تنقید نے ترقی پسندوں کے برعکس حالی کوایک وسیع تر معنوی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی۔ مغرب کے رعب داب کا تماشا تو ہمیں درحقیقت حالی کے یہاں نہیں بلکہ کلیم الدین احمد کے یہاں دکھائی دیتا ہے، جونہ تواپنے وجدان میں حالی کی سی وسعت رکھتے تھے، نہ ہی ان کے جیسا اعتدال۔ سچ تو یہ ہے کہ حالی کی جیسی بے لوثی اور دردمندی کا احساس بھی ہمیں تعمیر و ترقی کے ہنگامہ ہاؤہو کے باوجود حالی کے بعد کی تنقید میں کہیں نظر نہیں آتا۔ ترقی پسندوں نے افادیت اور مقصدیت کی کچھ روشنی توحالی کے مقدمے میں دیکھ لی، مگر کلاسکیت سے حالی کے شغف ان کے مشرقی بنیادوں کے شعور اور ان کی خوش مذاقی کا ادراک نہیں کر سکے۔


اسی لئے ان کے یہاں اس روحانی کشمکش کی پرچھائیں بھی دکھائی نہیں دیتی، جس نے حالی کے شعور کو ایک مستقل رزم گاہ بنا دیا تھا۔ اپنے آپ سے الجھتے رہنے کی یہ کیفیت ہمیں حالی کے عہد کی ان تمام شخصیتوں میں نمایاں نظر آتی ہے جو ماضی اور مستقبل کے دوپاٹوں میں خود کو گھرا ہوا محسوس کرتے تھے اور اپنے حال کے جنجال سے اس طرح نکلنا چاہتے تھے کہ گزرے ہوئے زمانوں کے علاوہ آنے والے دور کا قرض بھی اتار سکیں۔ سرسید، غالب، حالی، آزاد، شبلی، نذیراحمد۔۔۔ یہ سب کے سب اپنے حال سے پریشان لوگ تھے۔ مقدمہ اس پریشانی کو سمجھنے اور اس کا تجزیہ کرنے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کشمکش کو فکری و تخلیقی توانائی میں منتقل کرنے کا ایک ذریعہ بھی ہے۔


حالی کی الجھن کا سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ حقیقت پسندی کا وہ تصور جو انہیں اپنے عہد کی عقلیت سے ملا تھا اور جسے اختیار کرنے پر وہ خود کو مجبور پاتے تھے، حقیقت کے اس تصور سے بہت مختلف تھا جوان کی وراثت تھی۔ حقیقت کے تصور کی سطح پریہ مغرب اور مشرق کے مابین ایک اور آویزش بھی تھی۔ اس آویزش کے حوالے اجتماعی سہی مگر یہی آویزش ایک شخصی رزمیے کی بنیاد بھی بنی۔ چنانچہ مقدمے میں حالی کے گردوپیش کی دنیا کے ساتھ ساتھ ہم اپنے آپ کو ان کے باطن سے بھی ہم کلام پاتے ہیں اور اسی لئے میں سمجھتا ہوں کہ ا س مقدمے کی دفعات اتنی واضح نہیں ہیں جتنی کہ اوپر سے دکھائی دیتی ہیں۔ ان میں ہمیں ایک نہایت حساس، منصب آگاہ اور تاریخ کے بھیدوں سے بوجھل ہستی کا سراغ بھی ملتا ہے۔