منتشر ہم ہیں تو رخساروں پہ شبنم کیوں ہے

منتشر ہم ہیں تو رخساروں پہ شبنم کیوں ہے
آئنے ٹوٹتے رہتے ہیں تمہیں غم کیوں ہے
وہی لمحے وہی منظر وہی یادوں کے ہجوم
میرے کمرے میں اجالا ہے مگر کم کیوں ہے