منصف وقت سے بیگانہ گزرنا ہوگا
منصف وقت سے بیگانہ گزرنا ہوگا
فیصلہ اپنا ہمیں آپ ہی کرنا ہوگا
زخم احساس کبھی چین نہ لینے دے گا
سر میدان تمنا ہمیں مرنا ہوگا
تجھے چھو کر بھی تجھے پا نہ سکیں گے تو ہمیں
صورت درد ترے دل میں اترنا ہوگا
جانے لے آئی کہاں تیزئ رفتار ہمیں
کہ ٹھہر جائیں تو صدیوں کا ٹھہرنا ہوگا
عصر حاضر میں ہے جینا ہی جہاد اکبر
جس کی خاطر ہمیں ہر شے سے گزرنا ہوگا
حشر سے کم نہ کسی دن کے جھمیلے ہوں گے
اک قیامت ہمیں ہر شب کا گزرنا ہوگا
روئیں کیا ڈوبتے سورج کے لیے ہم روحیؔ
کہ نئی شان سے کل اس کو ابھرنا ہوگا