ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں

اگر اضطراب، بے قراری اور بے چینی کو انسانی نام دینا مقصود ہو اور اسے منیر نیازی کہہ دیجیے۔ جدید اُردو شاعری کو ایک نیا لہجہ اور انداز دینے والے منیر نیازی کی شاعری میں ہمیں آج کے انسان کے احساسات و جذبات اور مسائل و مشکلات کا گہرا شعور نظر آتاہے۔ وہ جدید دور کے انسان کے دکھوں کو سمجھتے ہیں  اور اپنی شاعری میں جابجا ان دکھوں تکلیفوں اور الجھنوں کا نقشہ کھینچتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

آج کے مصروف دور کے انسان کی بے سروپا زندگی میں اسے غمِ جاناں سے بھی نبرد آزما ہونا پڑتا ہے اور غمِ دَوراں سے بھی۔ اس زندگی کا ہر پل ہر گھڑی اور ہر لمحہ ایک کشمکش میں گزرتا ہے ۔ کبھی غمِ جاناں کا پلڑا بھاری ہو جاتا ہے تو کبھی غم دوراں سبقت لے جاتا ہے۔ اسی کشاکش اور

شش و پنج میں مبتلا اکثر اوقات انسان اپنی زندگی کے کئی ایسے فیصلے کرنے میں بہت تاخیر کر دیتا ہے  جو اس کے مستقبل کے لیے بہت اہم ہوتے ہیں اور کبھی کبھی تو یہ ہمیشہ دیر کر دینے کی عادت نہ صرف ہمیں بلکہ ہم سے وابستہ بہت سے لوگوں کو بھی متاثر کرتی ہے ۔ منیر نیازی آج کے مصروف دور کے اس زیاں کار رویے کو یوں نظم کر تے ہیں:

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں

ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو

 اسے آواز دینی ہو اسے واپس بلانا ہو

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

مدد کرنی ہو اس کی یار کی ڈھارس بندھانا ہو

بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو

 ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو

کسی کو یاد رکھنا ہو کسی کو بھول جانا ہو

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں

کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو

حقیقت اور تھی کچھ ، اس کو جا کے یہ بتانا ہو

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں

(منیر نیازی- ماہِ منیر)

اس نظم میں منیر نیازی نے انسان کے بچھتاووں کو بہت عمدہ انداز میں بیان کیا ہے۔ ہم اپنی سستی کاہلی یا بعض اوقات معاملات کی اہمیت کا شعور نہ ہونے کی وجہ سے کئی کام ادھورے چھوڑ دیتے ہیں، کئی کرنے کے کام کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں، کئی کہنے کی باتیں ان کہی رہ جاتی ہیں اور کئی ایسے معاملات جہاں ہمیں کسی مخصوص وقت میں کسی مخصوص انسان کے ساتھ ہونا چاہیے، ہم وہاں پہنچنے میں ناکام رہتے ہیں ۔

پچھتاوے انسان کی ناتمام خواہشوں سے جنم لیتے ہیں یہ خواہشات کبھی کوئی خلش بن کر ہمیں پریشان کرتی رہتی ہیں اور کبھی کسی تلخ یاد کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ یہ احساس کہ "ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں"  بھی منیر کی یادوں کی کسک سے ہی تحریک پاتا ہے وہ یادوں کو محض یادوں کے طور پر ہی نہیں لیتے بلکہ خود احتسابی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔

وہ اپنی سرزنش کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ یوں لگتا ہے، جیسے وہ اپنے آپ کو ڈانٹ رہے ہوں ان نقصانات پر، جو انہوں نے ہمیشہ دیر کر دینے کی عادت کی وجہ سے اٹھائے یہی ایسا احساس زیاں ان کو اپنی ذات میں بہتری لانے کے اسباب فراہم کرتا ہے۔ منیر نیازی یادوں کو جس انداز میں اپنے حال کا حصہ بناتے ہیں، اس صورت میں یادیں یادیں نہیں رہتیں، مستقبل کا پیش خیمہ بن جاتی ہیں ۔

میری نظر میں منیر نیازی کی یہ نظم ایک طنزیہ تبصرا ہے اس دور کی برائے نام ترقی یافتہ اور مشینی زندگی پر، جس میں رشتے ناطے، تعلق واسطے اور احساسات ثانوی حیثیت اختیار کر چکے ہیں اور مادی سوچ، خود غرضی اور انا پرستی  ترجیحات میں اولیت کے درجے پر فائز ہو چکی ہیں۔

 ضرورت اس امر کی ہے کہ منفعتوں کی دوڑ میں  انسان انسانوں کے لئے وقت نکالے۔۔ضروری بات کہنی ہو۔۔۔کوئی وعدہ نبھانا ہو۔۔۔کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو۔۔۔مدد کرنی ہو اس کی یار کی، ڈھارس بندھانا ہو۔۔۔

کبھی نہ دیر کی جائے!

The heart is like a garden. It can grow compassion or fear, resentment or love. What seeds will you plant?

- Jack Kornfield

"قلبِ حزیں ایک چمن کی مانند ہے، اس میں شفقت و مہربانی (کے پھول) بھی اگ سکتے ہیں اور خوف اور وحشت (کے کانٹے) بھی، اس میں (جھاڑیوں کی مانند) دل کی زمین کو پراگندہ کرتی ناراضگی اور نفرت بھی پیدا ہوسکتی ہے اور اس میں (نرم نرم کلیاں اور گھنے سائے لیے ہوئے) محبت کے شجر بھی نشوونما پاسکتے ہیں۔

یہ آپ کا انتخاب ہے کہ آپ(اپنے دل کی سرزمین پر) کس بیج کی کاشت کے خواہش مند ہیں۔"