ملتفت جب سے نگاہ ناز ہے

ملتفت جب سے نگاہ ناز ہے
اور ہی کچھ عشق کا انداز ہے


گنگنایا نغمۂ دل حسن نے
سارا عالم گوش بر آواز ہے


پھیر کر منہ مسکرا کر دیکھنا
یہ ستانے کا نیا انداز ہے


مجھ کو مضطر دل کو بسمل کر گئی
ہائے کیا ظالم نگاہ ناز ہے


بحر عصیاں میں سراپا غرق ہوں
ہاں مگر تیرے کرم پر ناز ہے


دردؔ سے کیا پوچھتے ہو راز عشق
درد تو خود ہی سراپا راز ہے