مجھے زمان و مکاں کی حدود میں نہ رکھ
مجھے زمان و مکاں کی حدود میں نہ رکھ
صدا و صوت کی اندھی قیود میں نہ رکھ
میں تیرے حرف دعا سے بھی ماورا ہوں میاں
مجھے تو اپنے سلام و درود میں نہ رکھ
کلیم وقت کے در کو جبیں ترستی ہے
امیر شہر کے بیکل سجود میں نہ رکھ
نظام قیصر و کسری کی میں روانی ہوں
وجوب عین ہوں صاحب شہود میں نہ رکھ
بچھا یقیں کا مصلیٰ درون ہستی میں
نیاز و راز کے قصے نمود میں نہ رکھ
پس وجود جہاں میری خاک ہی تو ہے
رموز ہستیٔ دوراں ورود میں نہ رکھ