مجھے یہ جستجو کیوں ہو کہ کیا ہوں اور کیا تھا میں

مجھے یہ جستجو کیوں ہو کہ کیا ہوں اور کیا تھا میں
کوئی اپنے سوا ہوں میں کوئی اپنے سوا تھا میں


نہ جانے کون سا آتش فشاں تھا میرے سینے میں
کہ خالی تھا بہت پھر بھی دھمک کر پھٹ پڑا تھا میں


تو کیا میں نے نشے میں واقعی یہ گفتگو کی تھی
مجھے خود بھی نہیں معلوم تھا جو سوچتا تھا میں


خود اپنے خول میں گھٹ کر نہ رہ جاتا تو کیا کرتا
یہاں اک بھیڑ تھی جس بھیڑ میں گم ہو گیا تھا میں


نہ لٹنا میری قسمت ہی میں تھا لکھا ہوا ورنہ
اندھیری رات تھی اور بیچ رستے میں کھڑا تھا میں


گزرنے کو تو مجھ پر بھی عجب اک حادثہ گزرا
مگر اس وقت جب صدموں کا عادی ہو چکا تھا میں


میں کہتا تھا سنو سچائی تو خود ہے صلہ اپنا
یہ نکتہ اکتسابی تھا مگر سچ بولتا تھا میں


تجھے تو دوسروں سے بھی الجھنے میں تکلف تھا
مجھے تو دیکھ اپنے آپ سے الجھا ہوا تھا میں


خلوص و التفات و مہر جو ہے اب اسی سے ہے
جسے پہلے نہ جانے کس نظر سے دیکھتا تھا میں
جو اب یوں میرے گردا گرد ہیں کچھ روز پہلے تک
انہی لوگوں کے حق میں کس قدر صبر آزما تھا میں


بہت خوش خلق تھا میں بھی مگر یہ بات جب کی ہے
نہ اوروں ہی سے واقف تھا نہ خود کو جانتا تھا میں