مجھے تلاش کرو
شجر سے ٹوٹ کے جب میں گرا کہاں پہ گرا
مجھے تلاش کرو
جن آندھیوں نے مری سر زمیں ادھیڑی تھی
وہ آج مولد عیسیٰ میں گرد اڑاتی ہیں
جو ہو سکے تو انہی سے مرا پتہ پوچھو
مجھے تلاش کرو
چلی جو مشرق و مغرب سے تند و تیز ہوا
مرے شجر نے مجھے پیار سے سمیٹ لیا
مجھے لپیٹ لیا اپنی کتنی باہوں میں
یہ بے لحاظ عناصر مگر بضد ہی رہے
میں برگ سبز گرا برگ زرد کی مانند
اسی سلگتی ہوئی راکھ سی پتاور میں
جو بچھ رہی ہے افق سے افق کے پار تلک
مجھے تلاش کرو
شجر سے کٹ کے زباں کٹ گئی نہ ہو میری
میں چیختا ہوں مگر حرف ناشنیدہ ہوں
حیات تازہ ہے میری شجر سے میرا ملاپ
کہ بس وہی مری بالیدگی کا منبع ہے
جو ریگزار میں چھتنار دیکھنے ہیں تمہیں
مجھے تلاش کرو
فلک کے راز تو کھلتے رہیں گے ہم نفسو
مرے وجود کا بھی اب تو راز فاش کرو
مجھے تلاش کرو