مجھے رستہ نہیں ملتا
مجھے رستہ نہیں ملتا
میں جوہڑ میں کھلے پھولوں کے حق میں بول کر
دلدل کی تہہ میں دھنس گیا ہوں
میں نہیں کہتا کہ یہ کس آسماں کا کون سا سیارۂ بد ہے
مگر یہ تہہ زمیں کی آخری چھت ہے
یہاں دن ہی نکلتا ہے نہ شام عمر ڈھلتی ہے
پرندہ بھی نہیں کوئی کہ جس کے پاؤں سے کوئی
نوشتہ باندھ کر بھیجوں تو سمجھوں اس سے ملنے کا
بہانہ ہاتھ آیا ہے
ستارہ بھی نہیں کوئی کہ جس سے گفتگو ٹھہرے
نواح جسم میں پھیلی خضر آثار تنہائی مری سانسیں بڑھاتی ہے
مجھے اس دلدلی گوشے سے جانے کا کوئی رستہ نہیں ملتا
سن اے میری خضر آثار تنہائی
مری خاطر بھی تھوڑا سا تردد کر
مجھے بھی تو سکندرؔ کے جنازے میں پہنچنا ہے
مجھے بھی آب حیواں سے چھلکتی موت کا نوحہ سنانا ہے
مجھے بھی دور جانا ہے
سن اے میری خضر آثار تنہائی
مجھے اس تخم امکاں کے دریچے سے نکلنے دے
نمو کی چال چلنے دے
مجھے رستہ نہیں ملتا