مجھے نہ ڈھونڈ چمن کی حسیں بہاروں میں

مجھے نہ ڈھونڈ چمن کی حسیں بہاروں میں
سفیر دشت ہوں رہتا ہوں خارزاروں میں


ہر ایک بات کی تشریح تو نہیں ہوتی
کبھی تو بات کو سمجھا کرو اشاروں میں


وہ کیسا جوش تھا بچوں میں بھی شہادت کا
اچک رہے تھے جو پنجوں کے بل قطاروں میں


خوشا کہ میری بصیرت ابھی سلامت ہے
پرکھ رہا ہوں نگینوں کو سنگ پاروں میں


بجا کہ تجھ کو ہے شوق شناوری لیکن
ہے فرق جھیل ندی بحر کے کناروں میں


اسے یہ خوف کہ میں با اثر نہ ہو جاؤں
وہ میرا نام بھی لیتا نہیں اشاروں میں


ریا پسند مزاجوں میں دین کیا قیصرؔ
نہیں ہے جوہر ایماں ہی دین داروں میں