مجھے منزلوں کی ہے جستجو نہ کسی ڈگر کی تلاش ہے

مجھے منزلوں کی ہے جستجو نہ کسی ڈگر کی تلاش ہے
جو مری نظر کو سمجھ سکے مجھے اس نظر کی تلاش ہے


مجھے پاس دیر و حرم نہیں مری بندگی ہے وہ بندگی
جہاں خود بخود مرا سر جھکے اسی سنگ در کی تلاش ہے


یہ جہان رنج و الم تو ہے یہاں روز و شب یہی غم تو ہے
نہ ہو جس کی پھر کوئی شام غم مجھے اس سحر کی تلاش ہے


میں بھٹک رہا ہوں ادھر ادھر کوئی ہم سفر ہے نہ راہبر
مری منزلوں سے جو خود ملے اسی رہ گزر کی تلاش ہے


میں پریشاں حال ہوں اس قدر کہ ہے چشم تر تو حزیں جگر
جہاں چل کے دل کو سکوں ملے اسی بام و در کی تلاش ہے


میں مثال شمع مزار ہوں میں ظفرؔ کا اجڑا دیار ہوں
میں وہی ہوں قیصرؔ غم زدہ مجھے پھر ظفر کی تلاش ہے