مجھے ڈر لگتا ہے
آؤ ہم آج ہی کھل کر رولیں
جانے کب وقت ملے
آنکھ میں جتنے بھرے ہیں آنسو
آؤ ہم آج بہا دیں ان کو
گھات میں عمر بھی ہے
وقت بھی رفتار بھی ہے
کون جانے کہ ملیں راستے کب منزل سے
کون جانے کہ رہا ہوں گے سفر سے کب تک
کون جانے یہاں کس رت کی ردا سے اتریں
پھول جن میں تری مہکار نہ ہو
کون یہ جان سکے تیرے حروف
میرے ہونٹوں سے کہاں ٹوٹ گریں
شہر آیندہ کے بت خانے میں
کیا پتہ اک تری تصویر نہ ہو
یوں تو اب کیا ہے جو کھونا ہے مجھے
اب تو بس چین سے سونا ہے مجھے