مجھے بے رخی پہ تیری اگر اختیار ہوتا
مجھے بے رخی پہ تیری اگر اختیار ہوتا
تو میں بزم سے نہ اٹھتا نہ میں شرمسار ہوتا
یہی آرزو تھی میری ترے در پہ جان دے دوں
تری رہ گزر میں ظالم مرا اک مزار ہوتا
دل ناصبور میں بس یہی اک ہوس ہے باقی
مری زیست کا فسانہ کہیں یادگار ہوتا
جو قفس میں آ گئے ہم کریں غیر چارہ سازی
اے نصیب کوئی اپنا مرا غم گسار ہوتا
میں نہ کھیلتا عراقیؔ کبھی زندگی سے اپنی
تری اس وفا پہ مجھ کو اگر اعتبار ہوتا