مجھے بتا تو سہی
مجھے بتا تو سہی اے حبیب کم عمری
وہی ہیں لب وہی گفتار اور وہی انداز
پس وجود وہ کیا تھا جو اب نہیں ہوتا
مری نظر میں کوئی ایسی روشنی تھی بھلا
جو بجلیوں سی اتر کر ترے سراپے میں
تجھے ہجوم دلآرام سے سوا کرتی
وہی ادا وہی انداز خد و خال مگر
لگاؤ دل کا یوں ہی بے سبب نہیں ہوتا
اب اس مقام پہ ہے زندگی جہاں پر عشق
حقیقتوں سے کئی سال اکتساب کے بعد
بدل چکا بڑی مدت سے حسن کا معیار
مزید یہ کہ چھلکتا وہ دل کا پیمانہ
گزرتے وقت کی ٹھنڈک سے بھر گیا جیسے
نظر پہ خواب سے رنگوں کا ایک پردہ تھا
وہ خواب رنگ سا پردہ اتر گیا جیسے
اب اے حبیب تری چشم سحر آگیں میں
سوائے عکس گزشتہ کے کچھ نہیں ملتا
وہ امتیاز ترا کھو گیا ہجوم میں پھر
ہر ایک رنگ ترے رخ پہ اب نہیں کھلتا
اسی لئے تجھے دیکھا تو دل نے سوچا ہے
وہ بھولپن تھا مرا یا مری حماقت تھی
مجھے بتا تو سہی اے حبیب کم عمری