مجھے اپنی پستی کی شرم ہے تری رفعتوں کا خیال ہے

مجھے اپنی پستی کی شرم ہے تری رفعتوں کا خیال ہے
مگر اپنے دل کو میں کیا کروں اسے پھر بھی شوق وصال ہے


اس ادا سے کون یہ جلوہ گر سر بزم حسن خیال ہے
جو نفس ہے مست بہار ہے جو نظر ہے غرق جمال ہے


انہیں ضد ہے عرض وصال سے مجھے شوق عرض وصال ہے
وہی اب بھی ان کا جواب ہے وہی اب بھی میرا سوال ہے


تری یاد میں ہوا جب سے گم ترے گم شدہ کا یہ حال ہے
کہ نہ دور ہے نہ قریب ہے نہ فراق ہے نہ وصال ہے


تری بزم خلوت لا مکاں ترا آستاں مہ و کہکشاں
مگر اے ستارۂ آرزو مجھے آرزوئے وصال ہے


میں وطن میں رہ کے بھی بے وطن کہ نہیں ہے ایک بھی ہم سخن
ہے کوئی شریک غم و محن تو وہ اک نسیم شمال ہے


میں بتاؤں واعظ خوش نوا ہے جہان و خلد میں فرق کیا
یہ اگر فریب خیال ہے وہ فریب حسن خیال ہے


یہی داد قصۂ غم ملی کہ نظر اٹھی نہ زباں ملی
فقط اک تبسم شرمگیں مری بے کسی کا مآل ہے


وہ خوشی نہیں ہے وہ دل نہیں مگر ان کا سایہ سا ہم نشیں
فقط ایک غم زدہ یاد ہے فقط اک فسردہ خیال ہے


کہیں کس سے اخترؔ بے نوا ہمیں بزم دہر سے کیا ملا
وہی ایک ساغر زہر غم جو حریف نوش کمال ہے