مجھے اپنے جینے کا حق چاہیے
مجھے اپنے جینے کا حق چاہیے
زمیں جس پہ میرے قدم ٹک سکیں
اور تاروں بھرا کچھ فلک چاہیے
مجھے اپنے جینے کا حق چاہیے
نعمتیں جو میرے رب نے دھرتی کو دیں
صاف پانی ہوا بارشیں چاندنی
یہ تو ہر ابن آدم کی جاگیر ہیں
یہ ہماری تمہاری کسی کی نہیں
مجھ کو تعلیم صحت اور امید کی
سات رنگوں بھری اک دھنک چاہیے
مجھے اپنے جینے کا حق چاہیے
نہ ہوا صاف ہے نہ فضا صاف ہے
وہ جو آب بقا تھا وہ ناصاف ہے
زمیں ہو سمندر ہو یا آسماں
اک ذرا سوچیے اب کہ کیا صاف ہے
موت سے پر خطر ہے یہ آلودگی
دوستو دل میں تھوڑی کسک چاہیے
مجھے اپنے جینے کا حق چاہیے