مجھ پہ ٹوٹی جو سیہ رات بتانے کی نہیں
مجھ پہ ٹوٹی جو سیہ رات بتانے کی نہیں
یعنی یہ گردش حالات بتانے کی نہیں
ہاں مرا حال بھی بالکل ہے تمہارے جیسا
مان لو بات کہ ہر بات بتانے کی نہیں
دل کی رگ رگ میں گھلی جائے حلاوت جس کی
ہائے وہ درد کی سوغات بتانے کی نہیں
دھوپ کے شہر میں میرے بھی کئی دن گزرے
سر پہ برسی تھی جو برسات بتانے کی نہیں
زندگی مست تھی تب اپنی فضاؤں میں مگن
کھیلی تھی وقت نے جو گھات بتانے کی نہیں
میں کہانی کو نئے لفظ و معانی دوں گی
خود پہ گزری ہوئی دن رات بتانے کی نہیں
وقت نے کی تھی رقم اس گھڑی اک عمدہ مثال
زندگی تھی جو ترے ساتھ بتانے کی نہیں
جانے انجانے میں کیا راز ہوئے ہیں افشا
یوں کھلی مجھ پہ مری ذات بتانے کی نہیں
ذکر میں لاؤں تو چھن جانے کا خدشہ ہے سحرؔ
آئی جو شے ہے مرے ہاتھ بتانے کی نہیں