مجھ کو منظور ہے مرنے پہ سبک باری ہو
مجھ کو منظور ہے مرنے پہ سبک باری ہو
اور احباب کو ہے فکر کفن بھاری ہو
زندگی میں نہ ملا زخم جگر کو مرہم
خیر چادر ہی مری قبر کی زنگاری ہو
یاد ہے روز ازل دل جو گراں ہے کیا غم
میں نے خود کہہ کے لیا تھا کہ ذرا بھاری ہو
آتش حسن جوانان چمن بھڑکا دے
جو گل سرخ کی پتی ہو وہ چنگاری ہو
تیری رحمت کے سہارے پہ گنا کرتا ہوں
ترک کر دوں اگر اس میں بھی گناہ گاری ہو
مجھ سیہ کار کی ہے مہر تو اٹھتی نہیں مہر
میرے اللہ نہ اتنی بھی گراں باری ہو
آج کل پاس ہے پھر نقد دل زار رشیدؔ
پھر کسی غیرت یوسف کی خریداری ہو