مجھ کو ہر پھول سناتا تھا فسانہ تیرا (ردیف .. م)

مجھ کو ہر پھول سناتا تھا فسانہ تیرا
تیرے دامن کی قسم اپنے گریباں کی قسم


گونجتا رہتا تھا اک نغمہ مرے کانوں میں
تپش آہنگیٔ مضراب رگ جاں کی قسم


التفات نگہ ناز کا سودا تھا کبھی
ختم وہ دور ہوا گردش دوراں کی قسم


اب نہ وہ دل ہے نہ وہ ولولۂ عرض نیاز
ہاتھ سے چھوٹے ہوئے گوشۂ داماں کی قسم


مجھ کو برباد ہی رہنے دے تلافی سے گزر
عشق احساں ہے گراں باریٔ احساں کی قسم


ادب آموز محبت ہے محبت میری
ورنہ کھاتا ترے توڑے ہوئے پیماں کی قسم