مدعا و آرزو شوق تمنا آپ ہیں
مدعا و آرزو شوق تمنا آپ ہیں
کس کو کس کو میں بتاؤں میرے کیا کیا آپ ہیں
مے کدہ ساغر صراحی اور صہبا آپ ہیں
جو کسی صورت نہ اترے ایسا نشہ آپ ہیں
جس پہ کرتی ہے محبت میری دعویٰ آپ ہیں
جس کا دل شام و سحر پڑھتا وظیفہ آپ ہیں
اے مری جان غزل شہر وفا و شوق میں
میری عذرا اور سلمیٰ میری نورا آپ ہیں
آپ ہیں اے جان جاں میرے سخن کی آبرو
سچ تو یہ ہے کہ غزل کا مصرع مصرع آپ ہیں
آپ کی زلفوں کا میں ہی تو نہیں تنہا اسیر
کر گئی برباد جو زاہد کی تقویٰ آپ ہیں
جذبۂ پاکیزہ میرے دل کا ہیں کچھ آپ ہی
میری چشم شوق کا سارا تماشہ آپ ہیں
عہد پیری میں غزل طرزیؔ میاں ایسی جواں
عشق میں کس کے بھلا اتنے بھی رسوا آپ ہیں