مڑ کے دیکھوں تو نہیں کوئی مگر لگتا ہے

مڑ کے دیکھوں تو نہیں کوئی مگر لگتا ہے
ایک سایہ سا پس گرد سفر لگتا ہے


کان دھرتا ہوں تو ہوتی ہے سماعت مجروح
اپنی ہی خواہش بے باک سے ڈر لگتا ہے


اس تماشے سے نکل پاؤں تو گھر بھی دیکھوں
یہ تماشہ جو سر راہ گزر لگتا ہے


نیند آ جائے تو پھر دھوپ نہ سایہ کوئی
پاؤں تھک جائیں تو پردیس بھی گھر لگتا ہے


آنکھ اٹھاتا ہوں تو ہے راہ میں حائل دیوار
پاؤں رکھتا ہوں تو دیوار میں در لگتا ہے


کیا قیامت ہے کہ آتا ہے نہ جاتا ہے کوئی
اک ہیولیٰ پس دیوار مگر لگتا ہے


بات کرتا ہوں تو مخمور سا ہو جاتا ہوں
اس کی باتوں میں ضیاؔ مے کا اثر لگتا ہے