سمندر کے کڑوے پانیوں کی تہہ میں مٹھاس کا خزانہ
پاکستانیوں کے لیے ایک خوش خبری ہے کہ اب چینی کی فراوانی ہونے والی ہے۔ چینی مافیہ سے جان چھوٹنے والی ہے۔ ایک تازہ خبر آئی ہے کہ سمندر میں چینی کے پہاڑ دریافت ہوئے ہیں۔ آئیے جانتے ہیں کہ یہ قصہ کیا ہے؟
قدرت بڑی مہربان ہے... اس نے انسان کو اس زمین نامی سیارے پر بے سرو سامان نہیں بھیجا ۔ انسان کو زمین پر اتارا گیا اور ساتھ ہی حکم ہوا کہ زمین پر پھیل جاؤ اور اس میں اپنا رزق تلاش کرو پہاڑوں کی چوٹیوں سے لے کر سمندر کی اتھا گہرائیوں تک اسباب زیست بکھرے پڑے ہیں۔ اب انسان کی تلاش اور جستجو پر منحصر ہے کہ وہ ان میں سے کتنے وسائل ڈھونڈ پاتا ہے اور انہیں اپنے تصرف میں لاتا ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ زمین کا 70 فیصد حصہ پانی اور 30 فیصد حصہ خشکی پر مشتمل ہے کیونکہ ہم خشکی پر مشتمل 30 فیصد حصے پر زندگی گزار رہے ہیں اس لئے ہماری تلاش اور جستجو کا محور بھی یہی 30 فیصد حصہ رہا ہے۔
ہم نے اس تیس فیصد حصے سے معدنیات، تیل ،قدرتی گیس، سونا ، چاندی، قیمتی دھاتیں اور نجانے کیا کچھ ڈھونڈ نکالا۔ سمندر کی دنیا ابھی تشنہ تحقیق ہے۔ سمندر سامان تجارت کی نقل و حمل کا ایک بڑا ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ ماہیگیری کی صنعت اور تیل اور قدرتی گیس کے ذخائر کو بھی سہارا دیے ہوئے ہے۔ بھارت میں سمندری پانی سے بہت بڑی مقدار میں نمک بھی حاصل کیا جاتا ہے لیکن سمندر کے کے خزانے تاحال ہماری نظروں سے اوجھل ہیں۔
سمندر میں چینی کہاں سے آئی؟
ان تحقیق طلب خزانوں میں سے ایک سمندری گھاس بھی ہے ۔ سمندری گھاس زمینی ماحول کے لیے بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ اس زمین پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کی کے سب سے بڑے ذخائر میں سے ایک ہے۔
میکس پلانک انسٹیٹیوٹ فار میرین مائیکرو بائیولوجی کے ماہرین کی ایک ٹیم جو سمندر کی تہہ میں اگنے والی گھاس پر تحقیق کر رہی تھی اس نے ایک دلچسپ دعویٰ کیا ہے۔ اس ٹیم کا کہنا ہے کہ سمندری گھاس سمندر کی تہہ میں بہت بڑی مقدار میں مٹھاس چھوڑتی ہیں ۔ یہ مٹھاس سکروز کی صورت میں سمندر کی تہہ کی مٹی میں محفوظ ہو جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں سمندر کی تہہ میں پائی جانے والی یہ گھاس ایک ملین ٹن کے قریب شوگر (سکروز) سمندر کی مٹی میں شامل کرتے ہیں .جو 32 ملین ٹن گنے سے حاصل کی گئی چینی کے برابر ہے۔ شوگر کی اس قدر زیادہ کنسنٹریشن حیران کن ہے۔
مٹی میں موجود خوردبینی جاندار عموماً ماحول میں موجود چینی کو فوری طور پر اپنے تصرف میں لے آتے ہیں۔ سائنسدانوں نے پتہ چلایا ہے کہ یہ سمندری گھاس خاص قسم کے فنالک کمپاؤنڈز خارج کرتی ہے جو اس شوگر کو خوردبینی جانداروں کے عمل سے ڈی گریڈ ہونے سے محفوظ رکھتے ہیں ۔یوں یہ چینی ان زیرآب سبزہ زاروں کی تہہ میں دفن رہتی ہے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ میں تحلیل نہیں ہوتی یہ تحقیق "نیچر ایکالوجی اینڈ ایوو لوشن" نامی جریدے میں شائع ہو چکی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ گھاس اتنی زیادہ مقدار میں چینی کس طرح اور کیوں تیار کرتی ہے ؟ نکول ڈیوبلئر (Nichole Dubilier) جو میکس پلانک انسٹیٹیوٹ فار میرین مائیکروبائیولوجی کی ڈائریکٹر ہیں، اس حوالے سے کہتی ہیں کہ سمندری گھاس فوٹو سنتھیسز کے عمل کے دوران جتنی شوگر تیار کرتی ہے وہ خود استعمال کر لیتی ہے۔ عمومی حالات میں ایسا ہی ہوتا ہے لیکن دوپہر کے وقت یا گرمیوں کے موسم میں جب روشنی کی فراوانی ہوتی ہے تو یہ گھاس وافر مقدار میں شوگر تیار کرتی ہے جو اس کی ضرورت سے بہت زیادہ ہوتی ہے ۔
سمندر میں کتنی چینی ہے؟
اپنی ضرورت سے زائد شوگر کو یہ گھاس زمین کی مٹی میں محفوظ کر دیتی ہے۔ عام طور پر خوردبینی جانداروں کے لیے چینی مرغوب غذا ہے لیکن اس گھاس سے پیدا ہونے والے فنالک مرکبات کی بدولت یہ چینی ان مائیکروبز کی دست برد سے محفوظ رہتی ہے ۔ایک اندازے کے مطابق سمندر کی تہہ میں موجود اگر ساری کی ساری شوگر کو خوردبینی جاندار ڈی کمپوز کر دیں تو کم از کم 154 ملین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوگی۔ جو 330,000 گاڑیوں سے ایک سال میں خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے برابر ہے۔
سمندر کی تہہ میں موجود شوگر کے ان ذخائر پر مزید تحقیقات جاری ہیں ۔ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ آیا ان سے ہم مستقبل میں کوئی فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہو پائیں گے یا نہیں ۔۔۔ کیا خبر سمندر کے کڑوے پانی کی تہہ میں چھپا مٹھاس کا یہ خزانہ کل ہماری چینی کی ضروریات پورا کرنے کے کام آ جائے۔
یہ تحریر سائنس ڈیلی کی رپورٹ سے ماخذ ہے۔ سائنس ڈیلی پر تفصیلی رپورٹ پڑھنے کے لیے درج ذیل لنک پر کلک کیجیے۔
Sweet spots in the sea: Mountains of sugar under seagrass meadows