مدرس ڈے

موبائل کی گھنٹی بجنے سے ہی میری آنکھ کھلی تھی ،بستر سے اتر کرجب تک میں کچھ دورمیز پر رکھے موبائل تک پہنچی فون بند ہو چکا تھا۔شاید کوئی ضروری میسج تھاجو بیل بجاکر بتایا گیاتھا۔ یقیناََ چھوٹے بیٹے کا ہی میسج ہوگا مجھے سمجھتے دیر نہ لگی وہ اکثریوں ہی کرتا ہے میسج کیا اور فون پر رنگ دے دی ۔ اگر میں رات کو موبائل سوئچ آف کردو ں اوراس درمیان اس کا فون آجائے اور میرا فون نہ اُٹھے توپریشان ہو کر گھر کے ہر فرد کویہاں تک کہ نوکروں اور پڑوسیوں کو بھی فون ملا دیتاہے ۔دراصل میرا چھوٹا بیٹا بہت حساس اور محبت کرنے والا بچہ ہے۔ چھوٹا ہونے کے ناطے مجھ پر اپنا سب سے زیادہ حق سمجھتا ہے ۔دیکھا جائے تو بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے بچے کی یہی نفسیات ہوتی ہے ۔حالانکہ میں اسے باور کراتی رہتی ہوں کہ میرے لیے تم تینوں بھائی برابر کی محبت کے حقدار ہو لیکن وہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتا ۔عجیب منطق ہے اس کی ، مجھے ہنسی بھی آتی ہے ،کہتا ہے۔۔۔
’’ میں سب سے چھوٹا ہوں بڑے بھائی سے نو برس اور منجھلے بھائی سے چار برس اور اتنے سالوں میں ان دونوں نے آپ کا پیار سمیٹا ہے سو اب آپ مجھے ان دونوں سے زیادہ پیار کریں تب حساب برابر ہوگا ۔ کچھ بھی کہیںآپ کی محبت کا سب سے زیادہ حقدار اب میں ہی ہوں ۔‘‘ میں اس کے سامنے مسکرا دیتی ہوں ،سوچتی ہوں کہ اسے کیسے سمجھاؤں کہ ایک ماں کے لیے اپنے بچوں میں فرق کرنا نہ ہی ممکن ہے اورنہ ہی جائز ۔ماں کو تو اس کا ہر بچہ پیارا ہوتا ہے ،جب تک زندہ رہتی ہے سب اولادوں پر اپنی محبت بے دریغ لٹاتی رہتی ہے ۔یوں بھی ایک عورت کی دنیامیں شادی سے پہلے ماں، باپ اوربہن بھائی ہوتے ہیں شادی کے بعد اس کا محور شوہر اور بچے ہوجاتے ہیں ۔ان کے ہی ارد گرد گھومتے ہوئے اس کی زندگی تمام ہوجاتی ہے ۔۔۔!!!
میری سوچ مجھے بھٹکا کر کہیں لے جانا چاہتی تھی لیکن اس وقت میرے دماغ میں موبائل کے میسجزگھوم رہے تھے۔ میں نے چشمہ اٹھایا اور موبائل لے کر اطمینان سے بیڈ پر بیٹھ گئی ۔تینوں بیٹوں کے میسجزموبائل کے اسکرین پر جگمگا رہے تھے ۔ Love you Mom, Miss you Mom ,Happy mothers dayمیرے ہونٹوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔۔۔ اوہ۔! تویہ بات ہے ۔۔۔آج مدرس ڈے ہے۔۔۔ !!! میں نے بھی جلدی سے Reply باکس میں جاکر Love You too کا میسج ٹائپ کر کے تینوں کوبھیج دیا ۔آج کی دنیا کے یہی رواج ہیںیہی فیشن ہے ، سو ان کے ہی انداز میں میں نے بھی اپنی ذمہ داری پوری کر دی ۔ اس فیشن کا حصّہ بننے کے بعد بھی میں سوچ رہی تھی کہ کیا ہے یہ۔۔۔؟مدرس ڈے۔۔۔ فادرس ڈے ۔۔۔لورس ڈے۔۔۔ و ومینس ڈے اورنہ جانے کون کون سے ڈے۔۔۔!!! ایک دن ہنگامہ کرلیا،خوش ہو لیے اورمطمئن ہو گئے کہ ذمہ داری پوری۔۔۔! بھلا رشتے بھی کیا ایک دن کی محبت اور توجہ کے محتاج ہوتے ہیں۔۔۔؟ نہ ہی رشتوں کے لیے وقت اور دن کی قیدہو سکتی ہے ۔۔۔ رشتے تو نبھائے جاتے ہیں۔۔۔ ہمیشہ ۔۔۔ جب تک انسان زندہ رہے۔۔۔ !!! لیکن جلد ہی اس کے دوسرے پہلو پر غور کیا، خود کوتسلی دی اور بچوں کی طرفداری میں سوچنے لگی۔۔۔اب ایسا بھی نہیں ہے کہ مدرس ڈے کے علاوہ بچے اپنی ماؤں کو یاد نہیں کرتے، مجبوریا ں ہیں ان کی بھی۔دوریوں میں قید ہیں وہ بھی ،وطن میں ہوں یا وطن سے دور، اپنوں سے دوررہ کر یا دوسرے درجے کا شہری بن کرزندگی گزارنااتنی آسان نہیں ہوتی ۔میرے دل سے دعا نکلی ۔۔۔جہاں رہیں، خوش رہیں ۔۔۔! میسجز پڑھ کر میں دوبارہ بستر میں لیٹ گئی۔ مجھے بھی اپنی اماں یاد آگئیں ، میں نے سوچااگر آج امّاں حیات ہوتیں اور میں انھیں بتاتی کہ آج ’’ماؤں‘‘ کا دن ہے تو وہ ایک دم یہی کہتیں۔۔۔’’ ارے ۔۔! یہ کیا بات ہوئی ۔۔۔؟ کیا ماں اور بچوں کے دن بھی طے شدہ ہوتے ہیں۔۔۔؟ ماں کے تو دن رات کیا ہر دن کے آٹھوں پہراور ہر لمحہ اس کے بچوں کی امانت ہوتا ہے۔ بھلا ایک دن کاکیا منانا۔۔۔! چوچلے ہیں جی انگریزوں کے۔۔۔!!!‘‘
اماں کی یاد آئی تو گزرے ماہ و سال جیسے سامنے آکر کھڑے ہو گئے۔۔۔ ! امّاں کا شفیق چہرہ تمام تر مظلومیت کے ساتھ نظروں میں گھوم گیا،ساتھ ہی ابّا کاجابرانہ رویّہ ، اپنا اوربہنوں کا ڈراسہما بچپن ،امّاں کی شادی کو لے کر نانی امّاں کا پچھتاوا اور گھرکی اُداس فظا سب کچھ ایک تواتر سے یاد آتا چلا گیا ۔عجیب دن تھے وہ ،ابّا کے غصّے کی وجہ سے اداسی ،کم مائیگی اورخوف میں لپٹے ہوئے ۔۔۔! بچپن سے جوانی تک میری یادداشت میں کوئی ایسا دن نہیں تھا جب ابّا کی ایک آواز پر امّاں نے غلاموں کی طرح دوڑ نہ لگائی ہو، معمولی باتوں پرناراض ہوکر ابّا نے امّاں کو ذلیل نہ کیا ہو ، خود کلامی کے انداز میں بڑبڑاتی ہوئی نانی نے ابّا کو برا بھلا نہ کہا ہو ۔ اور اس سب کے باوجود امّاں جوکبھی حرف شکایت زبان پر لائی ہوں۔ ابّا کاہتک آمیز رویّہ اور امّاں کا صبردونوں انتہا پر تھے ۔
نانی ہمیشہ اس وقت کو کوستی تھیں جب وہ بھائی کے احسانوں تلے دب کر اپنی بیٹی کا ہاتھ ان کے بیٹے کے ہاتھ میں دینے کو راضی ہو گئی تھیں۔ دراصل ہماری نانی جوانی میں ہی بیوہ ہو گئی تھیں ،امّاں اس وقت دو سال کی تھیں ۔ بد قسمتی سے امّاں کی ددیہال میں کوئی قریبی رشتے دار ایسانہ تھا جو ماں بیٹی کی سرپرستی کرتا سوامّاں کے ماموں بیوہ بہن اور بھانجی کو اپنے گھر لے آئے ۔ جوان ہوئیں تو ماموں نے اپنے بیٹے کی دلہن بنانے کی خواہش کا اظہاربہن کے سامنے کر دیا ۔ بھائی کے احسانوں سے دبی ہوئی نانی انکار کرنے کی جرائت نہ کر سکیں۔نانی بتایا کرتی تھیں کہ اس وقت ان کادل کسی حال اس رشتے کے لیے راضی نہ ہوتا تھا ۔۔۔کوئی جوڑ ہی نہ تھا دونوں کا ۔۔۔کہتی تھیں ’’کہاں میری چھوئی موئی سی حسین بیٹی اور کہاں گہری سانو لی رنگت اور بھدّے نقوش والا یہ میرا بھتیجہ اوپر سے بد مزاج بھی۔۔۔!لیکن میرے بھائی نے مجھے اس رشتے کے لیے یہ سمجھا کر ہم خیال کر لیا تھا کہ غیروں میں بیٹی بیاہتے ہوئے ہمیں سو بار سوچنا پڑیگا۔۔۔ نہ معلوم کیسے لوگ ملیں۔۔۔یتیم بچی ہے ،سر پر کوئی نہیں ہے۔۔۔کل کلاں کو کچھ ہو گیا تو کون دیکھے گا؟ تمہارے اوپر وقت پڑا تو میں نے ذمّہ داری اٹھائی اس کا تو کوئی بھائی بھی نہیں ہے ۔۔۔کہیں اس کے حق میں برا نہ ہوجائے ۔۔۔!‘‘
نانی کہتی تھیں کہ ’’ میں نے گھبرا کرہامی بھر لی اور اپنے دل کو یہ سوچ کر تسلّی دے لی کہ یہی بہت ہے کہ شادی کے بعدکم از کم میری نظر وں کے سامنے تو رہے گی ۔یہ تو دیکھا بھالا ہے عادت خصلت بھی معلوم ہے ۔غیروں کی بھی کیا گارنٹی کہ سب کچھ اچھا ہی ہوگا ۔۔۔! رہی شکل صورت کی بات تو مرد کی شکل سے زیادہ اس کی محبت معنی رکھتی ہے ،خوبصورت بیوی ملے گی تو ٹوٹ کر چاہے گا ۔لیکن یہ تو میں نے بھی نہیں سوچا تھا کہ یہ کم شکل خوبصورت بیوی ملنے پر بجائے خوش ہونے کے احساس کمتری کا شکار ہو کر نفسیاتی مریض بن جائیگا ۔ پہلے دن سے ہی ذلیل اوربے عزّت کرکے برتری ثابت کرنے کے بہانے ڈھونڈے اس نے ، نہ کبھی محبت کی نگاہ بیوی پر ڈالی نہ الفت کے دو بول کانوں میں انڈیلے، ہر وقت ناک پہ غصّہ ۔۔۔رہی سہی کسرایک کے بعد ایک چار بیٹیوں نے جنم لے کر پوری کر دی ہر وقت کاٹ کھانے کو دوڑنے لگا ۔۔۔ہائے میری کم نصیب بچی ۔۔۔!میں نے بڑا ظلم کیا تجھ پر ۔‘‘ نانی کے پچھتاوے کم نہ ہوتے تھے۔۔۔!!!
میں نے ہوش سنبھالا تو ابّا کو ایک سخت حاکم کی طرح اماں پر حکم چلاتے دیکھا ۔ اماں بیچاری غلام کی طرح لرزتی کانپتی حکم بجا لانے کی کوشش میں ہلکان ہوتی رہتیں۔ انھیں دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے وہ جنگ میں جیتی ہوئی کوئی جنگی قیدی ہوں جسے فاتح کے سامنے صرف خاموش رہنا اور سر جھکانا ہوتا ہے۔ ابّاکا یہ روّیہ مجھے بالکل پسند نہیں تھا، اسی لیے میرے دل میں کبھی ابّا کے لیے وہ محبت پیدا نہ ہوسکی جو ایک بیٹی کو اپنے باپ سے ہوتی ہے یا ہونا چاہیے۔ مگر نہ جانے کیوں اتنے غصّے والے ابّا سے مجھے بالکل ڈرنہیں لگتا تھا، اسی لیے میں اکثر ان کی باتوں کو ان سنا کر دیاکرتی تھی۔ میری اس حرکت سے اماں بہت ناراض ہوتی تھیں اور مجھے ایک فرمانبردار بیٹی بننے کی نصیحت آمیز سرزنش کرنا نہ بھولتیں۔مجھ سے بڑی دونوں بہنیں بڑی ڈرپوک واقع ہوئی تھیں جب ابّاکا قہر اماں پر نازل ہوتا تو وہ دونوں گھر کے کونے کھدرے تلاش کرتیں ، چھوٹی بہن ابّا کی کرخت آوازسے ڈر کر امّاں کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتی ۔ صرف میں ہی تھی جو تن کر وہیں کھڑی رہتی اورکبھی کبھی اُس بات کا جواب بھی میری طرف سے ابّا کو پہنچتا تھا ابّاجس جواب کے طالب وہ اماں سے ہوتے تھے ۔اماں کی خاموشی اور میرے جواب سے ابّا کا پارا آسمان چھونے لگتا ۔ کئی بارمیں نے اپنی اس جسارت کے بدلے ان کے تھپّڑ بھی کھائے تھے لیکن اپنی بھولی سی اماں کے لیے مجھے یہ بھی منظور تھا ۔ابّا کے اس رویّے کو دیکھتے ہوئے نہ جانے کیسے میرے ذہن میں یہ خوف گھر کر گیا تھا کہ کہیں کسی دن ابا اماں کو مار ہی نہ ڈالیں،سوجب ابّا گھر میں ہوتے میں اماں کے آس پاس ہی منڈلاتی رہتی۔ ایک د ن میں نے اپنے اس خدشے کا اظہارامّاں کے سامنے بھی کردیا،سن کر امّاں توغصّے سے پاگل ہوگئیں ،پہلے تو انھوں نے میری پیٹھ پر ایک دھموکا جڑا پھر ڈانتے ہوئے کہنے لگیں ۔۔۔
’’ پاگل ہوگئی ہے ،کمبخت لڑکی ! تجھے ایسے لگتے ہیں وہ ۔۔۔؟ذرا غصّے کے تیز ہیں بس ۔۔۔تجھے معلوم بھی ہے کہ کتنی گنہگار ہوئی ہوگی تواپنے باپ کے بارے میں ایسا سوچ کر۔۔۔؟‘‘ اور میرے دل میں آتا کہ اماں سے پوچھوں کہ کیا وہ گناہ نہیں ہے جو ابا کرتے ہیں؟ ہر وقت غصّہ ۔۔۔چیخ پکار۔۔۔نہ بچوں سے محبت نہ بیوی سے لگاؤ۔۔ ۔!لیکن میںیہ سب صرف سوچ کر رہ جاتی کیونکہ اماں کا غصّہ ساتویں آسمان پر پہنچ چکا ہوتا تھا ۔اس بات کے بعداماں کئی دن تک مجھ سے ناراض رہیں اور انھوں نے اس وقت تک بات نہیں کی جب تک میں نے ان سے معافی نہیں مانگی ۔امّاں کے اس طرح احساس کرانے پر میں بھی اندر سے کچھ شرمندہ سی ہوگئی تھی، معافی مانگ کر میرا دل بھی ہلکا ہو گیا ۔
میں نے جوانی میں قدم رکھا تو میاں بیوی کے رشتوں کی نزاکت ،محبت و الفت کے انداز ، حقارت اور نفرت کے رویّے صاف صاف سمجھ میں آنے لگے اور تبھی اس احساس تک میری رسائی ہوئی کہ ابّا کو اپنی معمولی شکل کی وجہ سے ایک احساس کمتری ہے اوربقول نانی کے کہ جس نے انھیں نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔حالانکہ یہ بات خود ان کے ذہن کی اختراع تھی۔ اماں کے لیے تو ابّا کسی ہیرو سے کم نہ تھے ۔ دھان پان سی گلابی رنگت والی امّاں کو اپنی انتہائی خوبصورتی کا احساس تک نہ تھازعم کیا ہوتا ۔۔۔؟ نہ ہی ابا کی معمولی شکل سے انھیں کوئی اعتراض تھا۔ ابّا کی اتنی بے اعتنائی کے باوجودوہ حرف شکایت بھی زبان پر نہ لاتی تھیں۔ان کے کھانے ،کپڑے ، بستر سے لیکر ان کے جوتے چپل تک کا دھیان رکھنا ان کے فرائض میں شامل تھا۔ ابّا کومعمولی نزلہ زکام بھی ہوجاتا تو تیمارداری میں کوئی کسر نہ چھوڑتیں۔کبھی بخار آجاتا توگھنٹوں ان کے سرہانے بیٹھی ماتھے پر ٹھنڈے پانی کی پٹّیاں رکھتیں۔پرہیزی کھانے بناتیں ،وقت پر دوا دیتیں اور ہر نماز میں ابّا کی صحت کے لیے دعائیں مانگنا نہ بھولتیں۔
گرمیوں کی لمبی لمبی دوپہروں میں کیا مجال جو کبھی گھڑی دو گھڑی آرام کرنے کے لیے لیٹ جاتیں۔ ابّا کے لیے سفید ململ کے کرتے وہ اپنے ہاتھ سے کاڑھ کر سیتیں، چاول اُبال کر اس کے ماڑھ کا کلف لگا تیں، کوئلوں والی استری سے جما جما کرپریس کرتے ہوئے ان کے چہرے پرتھکن کا شائبہ تک نہ ہوتا۔ ان کی اس محنت کو دیکھ کر مجھے ان پر ترس آتااور میں ان کو مشورہ دیتی ’ ’اماں آپ خواہ مخواہ اتنی محنت کرتی ہیں ۔مشین کی سلائی کیوں نہیں کرتی ہیں ان پر ۔۔۔؟کیا ہیرو بن جائیں گے ابّایہ ہاتھ کے سلے کرتے پہن کر ۔۔۔؟ ‘‘ مگر امّاں میری اس با ت پر مسکرا کر کہتیں ۔۔۔’’ ابھی کیاکسی ہیرو سے کم ہیں تمہارے ابّا۔۔۔؟ ارے لڑکی تم کیا جانو عورت کو کیسا سکون ملتا ہے اپنے شوہر کے کام کرکے ۔۔۔اور تمہیں توسلائی کڑھائی کی ان باریکیوں کا بھی علم نہیں کہ ململ کے کرتے ہاتھ ہی کے سلے ہوئے اچھے لگتے ہیں مشین کی سلائی میں وہ نفاست نہیںآتی ہے ۔ ‘‘ اور میں اماں کی بات پر دنگ رہ جاتی۔۔۔! واہ ری مشرقی عورت کی محبت ۔۔۔! ایسے ظالم شخص کے لیے ایسے خیالات ۔۔۔! میں منھ ہی منھ میں بد بداتی کہ کہیں اماں سن نہ لیں اور ناراض ہو جائیں ۔ ۔۔!!!دوسری طرف ابّا کا یہ حال تھا کہ اماں کی کوئی بات انھیں پسندہی نہ تھی نہ ہی ان کے بے لوث جذبے ابّا نے کبھی محسوس کیے۔ابّا کی اتنی بے رخی پر بھی امّاں کا عالم یہ تھا کہ اگرکسی دن ابّابغیر غصّہ کیے ان سے بات کرلیتے تو وہ کھِلی کھِلی سی دکھائی دیتیں،خوشی کے احساس سے ان کا چہرہ اور دمکنے لگتا!!!
جون ماہ کے تیسرے جمعہ کا وہ دن میری یادداشت میں اب بھی محفوظ ہے جب اماں کا وہ سفید سوٹ ابّا کے غصّے کا سبب بن گیا تھا جسے انہوں نے اس دن خصوصی طور پر پہنا تھا۔پیازی رنگ کے ریشم سے کڑھا ہواجمپرجو امّاں نے خودہی کاڑھا تھا، سفید شلوار اور کلف لگے دوپٹّے میں وہ اپنے پاکیزہ وجود اور خوبصورت چہرے کے ساتھ آسمان سے اتری کوئی حور نظر آرہی تھیں۔ابّا گھرمیں داخل ہوئے توپہلے تو دیکھتے ہی رہ گئے پھر ایک دم جیسے ٹرانس سے باہر نکلے اور دہاڑ کر بولے’’ کیا میرے مرنے کی خبر دے گیا تھا کوئی، جو یہ سفید جوڑا پہنا ہے۔۔۔؟‘‘ اور اماں نے دہل کر سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے صرف یہی کہا تھا ’’ خدا نہ کرے جو میں یہ دن دیکھوں ۔‘‘اور انہوں نے اسی وقت وہ کپڑے اتار کر رنگین کپڑے پہن لیے تھے۔ آج سوچتی ہوں کہ کاش اس دن ابّا پہلے نظر بھر کر امّاں کو دیکھ لیتے اورپھر ان کے کان میں صرف اتنی سرگوشی کر دیتے کہ ’’ بہت خوبصورت لگ رہی ہو‘‘ تو شاید اماں اسی دن خوشی سے مرجاتیں ۔ ۔۔!
یہ صرف ایک واقعہ ہے ایسے بہت سے واقعات ہیں جب ابا اپنے تلخ لہجے کا زہر امّاں کی سماعتوں میں انڈیل کر اپنی تسکین کیا کرتے تھے ۔ ان کا غصّہ کچھ خاص موقعوں پر عود کر آتا تھا ،مثال کے طور پر جس دن امّاں کوئی نیا کپڑا پہن لیتیں اس دن ابّا کوضرور ہی رولا ڈالنا ہوتا۔کسی قسم کااحتجاج تو امّاں کی سرشت میں ہی نہ تھا بس خاموشی سے نگاہیں نیچی کیے اپنا’’وہ قصور‘‘جاننے کی کوشش میں لگ جاتیں جو ان سے سرزد بھی نہ ہوا ہوتا ۔ ایک اور دن امّاں کے امتحان کا ہوا کرتا تھا کہ جب کبھی ہمارے گھر ملنے ملانے کی غرض سے رشتے ناطے کی دو چارخواتین آجاتیں اور جاتے وقت امّاں کے سلیقے اور خوبصورتی کا اعتراف کرتے ہوئے ابّا کو خوش نصیب بھی کہہ جاتیں ۔یہ سن کرابّا کے آگ ہی تو لگ جاتی اوربعد میں سارا غصّہ وہ امّاں پر نکالتے ۔
ایسا ہی ایک سیاہ دن امّاں کی زندگی میں اس وقت آگیاجب ایک بار ابّاکے ماموں ہمارے گھر مہمان ہوئے ۔اپنی زندگی میں رشتوں کو ترسی ہوئی امّاں کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا، تین چار دن کے قیام کے دوران امّاں نے ان کی خوب خاطر خد مت کی ۔اتنے قلیل عرصے میں بھی ماموں کی جہاندیدہ نگاہوں نے ابّا کا رویّہ اور امّاں کی نیکی اور سادہ مزاجی کا جائزہ لے لیا ، خدمت گزاری اور سگھڑاپے کے بھی قائل ہو گئے ۔ بزرگ تھے سو اپنا فرض نبھایا ،چلتے وقت امّاں کے سر پر ہاتھ رکھ کر دعائیں دیں اور ابّا کی طرف دیکھ کر یہ بھی کہہ گئے کہ ’’نصرالدّین قدر کیا کر اس ہیرے کی ۔‘‘
اس وقت تو ابّا کچھ نہ بولے اندر ہی اندر پیچ و تاب کھاتے رہے ،شاید پوری رات انگاروں پر لوٹ کر گزاری تھی کہ صبح سے ہی شروع ہو گئے ۔شایدپہلے سے طے کیے بیٹھے تھے کہ ناشتے کو ہی بہانہ بنانا ہے ،سواس صبح جب مّاں نے سلام کے ساتھ ناشتے کی ٹرے ابّا کے سامنے رکھی تو ابّا نے پھوہڑ کہتے ہوئے پہلے تو ناشتے میں ہزار عیب نکالے پھر چائے کو بد مزہ کہہ کرچینی کی پیالی زمین پر دے ماری۔سہمی ہوئی امّاں نے جب تک ڈرتے ڈرتے دوسری چائے بناکرلانے کو کہا تب تک ابّا پر شیطان سوار ہو چکا تھا ۔منھ سے جھاگ ڈالتے ہوئے بے رحمی سے امّاں کا کندھا پکڑکر اس جملے کی گردان کر ڈالی جسے سن کر زمین اور آسمان بھی لرزتے ہیں۔ اس وقت اللہ کا سب سے ناپسندیدہ کام ابّا نے چن لیا ۔امّاں دہاڑ مار کر زمین پر گر یں اور ابّا نے ایک جست لگاکر کھونٹی پر لٹکا تھیلا اُتارا اور جلدی جلدی اس میں اپنے کچھ کپڑے ٹھونسے اور گھر سے نکل گئے ۔
سگے رشتہ داروں میں ہمارا نانی کے علاوہ کوئی نہ تھا۔ نانی نے آکر امّاں کو سنبھالا اور جتنا براوہ ابّا کو کہہ سکتی تھیں انھوں نے کہا ،لیکن اماں نے ابّا کے خلاف ایک لفظ بھی منھ سے نہیں نکالا بس یہی کہتی رہیں ’’ میں ہی بد قسمت ہوں ۔۔۔بچپن باپ کے بغیر گذرا اور اب بڑاھاپا شوہر کے بغیر گذرے گا۔۔۔!!!‘‘ لیکن نانی کو بہت غصّہ تھا انھوں نے چھوٹتے ہی کہا کہ ’’ تیرے باپ کے مرجانے سے سایہ سر سے اُٹھاتھا ۔۔۔کاش یہ بھی مر ہی جاتا۔‘‘ اور میں امّاں کا جواب سن کر حیران رہ گئی تھی ،کہنے لگیں ’’ امّاں ایسے تو نہ کہو۔ ۔۔بھلے ہی میں اب ان کی بیوی نہیں رہی مگر میری بیٹیوں کے باپ تو وہی ہیں۔‘‘مگرنانی کو کسی پل قرا ر نہیں تھا ،وہ بہت غصّے میں تھیں جل کربولیں ’’ جن کے باپ مرجاتے ہیں وہ بچے نہیں پلتے کیا ۔۔۔؟جیسے تو پلی تھی ایسے ہی یہ سب بھی پل جاتیں۔۔۔! ‘‘
امّاں کی عدّت پوری ہوئی تو نانی انھیں اپنے گھر لے گئیں ،ابّااتنے دنوں نہ جانے کہاں کہاں کی خاک چھانتے پھرے، مگر وہ ہم سب کا کھانے پینے کا خرچہ پابندی سے بھیجتے رہے اورامّاں کے جانے کے بعدگھر واپس آگئے ۔جھکی ہوئی گردن سے معلوم ہوتا تھا کہ طنطنہ ختم ہو چکا ہے ،معلوم نہیں پچھتاوا تھا یا نہیں ۔اب اگر پچھتاتے بھی تو کیا ہونا تھا۔۔۔؟ ہم تینوں بہنوں نے گھراور چھوٹی بہن کو سنبھال لیا تھا۔ اماں سے ملنے بھی ہم دوسرے تیسرے دن نانی کے ہاں چلے جاتے تھے ۔ بڑے بے کیف دن گزر رہے تھے۔ اماں کو دیکھ کر لگتا تھا جیسے کسی نے انہیں قید میں ڈال دیا ہو۔ وہ اپنے گھر اور بچوں کو یاد کرکے بہت اداس رہتی تھیں۔۔۔!!!
اماں کی طلاق کو ایک سال ہونے آیا تھا کہ نانی نے ایک بڑا فیصلہ اماں سے پوچھے بغیر کر لیا اور دوڑ دھوپ کر کے ان کے لیے ایک رشتہ تلاش کر لیا ۔اتفاق سے یہ صاحب جن سے نانی نے امّاں کا رشتہ طے کیا تھا، ابا کے کسی رشتے سے بھائی لگتے تھے ان کا نام رفیق تھا وہ پہلے بھی کبھی کبھارہمارے گھر ابّا سے ملنے آجاتے تھے ہم سب بہنیں انہیں اچھی طرح پہچانتے تھے۔پروقارشخصیت کے مالک رفیق چچا پرائمری اسکول میں ہیڈ ماسٹر رہ چکے تھے۔ ریٹائر منٹ کے بعد سکون کی زندگی گذار رہے تھے کہ اچانک دل کا دورہ پڑنے سے ان کی بیوی کا انتقال ہوگیا ،لاولد تھے سو بیگم کے گزر جانے کے بعد تنہا رہ گئے۔ نانی نے ان سے خود بات کی اور انھیں تیار کرلیا کہ وہ اماں سے نکاح کرلیں اور انہیں سمجھایابھی ’’کہ یہ نکاح دونوں کے حق میں بہتر ہوگا ۔‘‘ وہ تو آسانی سے مان گئے مگر اماں کو منانا ٹیڑھی کھیر ثابت ہورہا تھا۔ ان کا کہنا تھا تین بچیاں شادی کی عمر کی ہونے جا رہی ہیں اور ایسے میں میں بیاہ رچاؤں گی؟ نہیں اماں۔۔۔ نہیں ۔۔۔مجھ سے یہ نہیں ہوگا ! ‘‘مگر نانی بہت دور کی سوچ رہی تھیں۔کہنے لگیں ’’ مستقبل کا سوچو ۔۔۔میرے بعد کیا ہوگا تمہارا ؟کوئی بیٹا بھی نہیں ہے ۔۔۔کس کے در پر پڑوگی جا کر ۔۔۔؟ بڑھاپے میں خواری ہوجائیگی۔ اکیلا رہنا آسان نہیں ہے۔۔۔!‘‘یوں امّاں کی ایک نہ چلی اور نانی نے رفیق چچا سے ان کا نکاح کروا کر ہی دم لیا۔
رفیق چچا اماں کے لیے بہت اچھے شوہر ثابت ہوئے ۔وہ ہم سب بہنوں سے بھی بہت شفقت سے پیش آتے تھے ۔ہماری شادیاں تو ابّا نے ہی کی تھیں لیکن امّاں کے کہنے پر ہمارے رشتوں کے لیے دوڑدھوپ رفیق چچا نے ہی کی ۔بلکہ میں تو یہ کہونگی کہ ان کی ہی بدولت ہم تینوں بہنوں کی شادیاں مناسب طریقے سے ٹھیک ٹھاک گھرانوں میں وقت پرہوگئیں ورنہ ابّا کے رویّے اور ادھیڑ عمر کے اس غلط فیصلے سے ہمارے رشتوں پر بھی اثر پڑسکتا تھا ۔بعدمیں ابا نے بھی ایک خاتون سے نکاح کرلیا ۔نہ معلوم خوشی سے کیا تھا یا ان کو بھی سامنے بڑھاپا نظر آرہا تھاجس کے لیے ایک ساتھی کا بندوبست کیا تھا ۔ رفیق چچا اماں کی خوشی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے چھوٹی بہن کو بھی ابّا کی اجازت سے اپنے گھر لے آئے ۔نانی اور ہم سب بہنیں اب امّاں کی طرف سے مطمئن ہو گئے تھے ہمارا میکہ بھی اب ابّا کا گھر کم اور امّاں اوررفیق چچا کا گھر زیادہ تھا۔ اماں کا نکاح کروا کر نانی بھی جیسے مطمئن ہو گئی تھیں سوانہوں نے بھی ملک عدم کی راہ پکڑی۔
رفیق چچااماں کی بے حد عزت کرتے تھے ، ان کی چھوٹی سے چھوٹی خوشی کی بھی ان کی نظر میں بڑی اہمیت تھی۔ مگر اماں کی دنیا تو بڑی محدود تھی ،نہ کبھی کوئی فرمائش نہ کسی چیز کی چاہت نہ کسی کمی کا گلہ ہر حال میں مطمئن ۔ہاں ہم بہنوں سے رفیق چچاکی محبت دیکھ کر انہیں بہت سکون ملتا تھا۔ گزرتے وقت کے ساتھ انہوں نے حالات سے سمجھوتا کرلیا تھااور وہ اب رفیق چچا کے ساتھ خوش بھی رہنے لگی تھیں ۔ میں اکثر رفیق چچا اور اماں کو پاس پاس بیٹھے دیکھتی تو دل ہی دل میں کہتی یا اﷲ یہ پہلے کہاں تھے۔ ۔۔؟ رفیق چچا ہی ہمارے ابّا کیوں نہ ہوئے ۔۔۔؟ میں جب ان کو ابّا کہتی تو امّاں چپکے سے مجھے سرزنش کرتیں کہ’’ تمہارے ابّا نے سنا تو انہیں اچھا نہیں لگے گا ۔تم ان کو چچا ہی کہا کرو۔‘‘ میں نے پھرکبھی امّاں کی خوشی کی خاطر رفیق چچا کو ’ ابّا ‘‘ نہیں کہا ۔لیکن رفیق چچا کا رویّہ ہم سب بہنوں کے ساتھ ایک شفیق باپ جیسا ہی تھا اور وہ ہم سب کے لیے محترم تھے ۔
اگست ماہ کی وہ گرم سہ پہر بھی مجھے اچھی طرح یاد ہے جب ایک دم ہوائیں تیز ہو گئی تھیں، آسمان پر کالے بادلوں کے چھا جانے سے ہر طرف اندھیرا ہو گیا تھا ۔ موسم کے خطرناک تیور دیکھ کرپنچھی بھی قبل از وقت اپنے آشیانوں کی طرف لوٹنے کی سعی کر رہے تھے ۔میرے دل میں موسم کی خرابی سے عجیب سی وحشت اُٹھی تومیں بچوں کو لے کر برآمدے میں آبیٹھی ،ابھی دس منٹ ہی ہوئے ہونگے کہ رفیق چچا کا فون آیا ’’ بیٹارابعہ تمہاری امّاں کو دل کا دورہ پڑا ہے اور میں انھیں لے کر ہسپتال جا رہا ہوں، دوسری بہنوں کوبھی خبر کر دو اورفوراََ ہسپتال پہنچو۔۔۔!‘‘
آناََ فاناََ ہم سب بہنیں بتائے گئے ہسپتال پہنچے مگر تب تک امّاں اپنے ابدی سفر پر روانہ ہو چکی تھیں۔رفیق چچا کا گھر ایک بار پھر سونا ہوگیا ۔ اماں کے گزرجانے کے بعد رفتہ رفتہ ہم لوگوں کا بھی ان کے گھرآنا جانا کم ہوگیا تھا ۔چھوٹی بہن کوبھی میں اپنے پاس لے آئی کیونکہ اکیلے گھر میں وہ امّاں کو یاد کرکے ہر وقت روتی رہتی تھی ۔امّاں کو گزرے تین ماہ ہو چکے تھے کہ ایک دن رفیق چچا ہمارے گھر آئے، ان کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا سوٹ کیس تھا، اسے میرے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہنے لگے۔۔۔ ’’ بیٹا یہ تمہاری اماں کے کچھ کپڑے وغیرہ ہیں، دیکھ لینا کسی غریب کو دینا چاہو تو دے دینا یا بطور نشانی اگر کوئی چیز اپنے پاس رکھنا چاہو تو رکھ لینا ۔لڑکیوں کو اپنی ماؤں کی استعمال شدہ چیزوں سے بھی بہت محبت ہوتی ہے ۔‘‘
میں نے وہ سوٹ کیس رفیق چچاسے لے کرکمرے میں رکھ دیا۔ رات کو جب سب لوگ سو گئے تو میں نے بھاری دل سے اسے کھولا، دیکھا تو اس میں اماں کے دو جوڑے رکھے تھے جو وہ کبھی ابّا کے ہا ں پہنا کرتی تھیں، ان میں وہ سفید سوٹ بھی تھا جس میں اماں مجھے آسمان سے اتری کوئی حور نظر آتی تھیں اور جسے ابّا کی ناراضی کے ڈرسے انہوں نے دوبارہ کبھی نہیں پہنا تھا۔ ایک تولیہ میں ابّا کے پہنے ہوئے ایک جوڑکپڑے جن میں وہی سفیدململ کا کرتا جو امّاں نے بڑی محبتوں سے ان کے لیے خوداپنے ہاتھ سے کاڑھا اور سیاتھا،لٹھّے کاپاجاما اوروہ ٹوپی جو انہوں نے کروشیا سے ابّا کے لیے بنی تھی، تبرّک کی طرح لپٹے رکھے تھے۔۔۔!!!