مولوی صاحب اور زندگی

کیا آپ عالمِ دین  یا  مولانا  یعنی دینی رحجان رکھنے والے فرد یا باریش (داڑھی والے) ہیں؟

اگر ہیں تو۔۔۔۔

حضور آپ دینی رحجان رکھنے والے فرد ہیں

شاعری مت کیا کریں۔

حضور آپ دینی رحجان رکھنے والے فرد ہیں

غزلیں تو بالکل ہی مت لکھا کریں۔

حضور آپ دینی رحجان رکھنے والے فرد ہیں

والی بال مت کھیلا کریں۔

حضور آپ دینی رحجان رکھنے والے فرد ہیں

اتنی فٹ بال میں دلچسپی آپ کے لیے مناسب نہیں ہے۔

حضور آپ دینی رحجان رکھنے والے فرد ہیں

گھومنا پھرنا آپ کو زیب نہیں دیتا ہے۔

حضور آپ دینی رحجان رکھنے والے فرد ہیں

لباسی آرائش نہ کیا کریں۔ 

حضور آپ دینی رحجان رکھنے والے فرد ہیں

آپ کو باہر ہنسنا نہیں چاہیے۔

حضور آپ دینی رحجان رکھنے والے فرد ہیں

موٹر سائیکل پر سوار مت ہوا کریں۔

حضور آپ دینی رحجان رکھنے والے فرد ہیں

دھوپ میں کالا چشمہ مت لگایا کریں۔

حضور آپ دینی رحجان رکھنے والے فرد ہیں

ہینڈزفری لگا کر بات مت کیا کریں۔

حضور آپ دینی رحجان رکھنے والے فرد ہیں

جوگرز مت پہنا کریں۔

حضور آپ دینی رحجان رکھنے والے فرد ہیں

آپ فقط سفید لباس ہی پہنا کریں۔

حضور آپ دینی رحجان رکھنے والے فرد ہیں

ہوٹل میں کھانا مت کھایا کریں کیوں کہ یہ آپ کے لیے مناسب نہیں ہے۔

حضور آپ دینی رحجان رکھنے والے فرد ہیں

یہ دوستیاں کرنا آپ کو زیب نہیں دیتا ہے۔

حضور آپ دینی رحجان رکھنے والے فرد ہیں

یونیورسٹیوں کا ماحول آپ کے لیے بالکل مناسب نہیں آپ فقط دینی تعلیم پر توجہ دیں۔

حضور آپ دینی رحجان رکھنے والے فرد ہیں

فقط دینی کتب کا مطالعہ کریں، ناول، ڈائجسٹ، کہانیاں اور دیگر فرھنگی اور ادبی کتب سے فاصلہ بنائے رکھیں۔

حضور آپ دینی رحجان رکھنے والے فرد ہیں

دنیاداری آپ کے لیے قطعاً مناسب نہیں ہے اس لیے آپ کاروبار نہ کریں۔

حضور آپ دینی رحجان رکھنے والے فرد ہیں

سیاست سے دور ہی رہا کریں۔

حضور آپ دینی رحجان رکھنے والے فرد ہیں

یہ نوکری کر کے اپنی صنف کی توہین کا سبب مت بنیں۔

حضور آپ دینی رحجان رکھنے والے فرد ہیں

تجارتی دماغ آپ کے لیے زیبا نہیں ہے۔

حضور آپ دینی رحجان رکھنے والے فرد ہیں

سوشل میڈیاہے پر ایسے فعال رہنا آپ کی عدالت کے لیے خطرے کا سبب ہو سکتا ہے۔

المختصر

حضور آپ دینی رحجان رکھنے والے فرد ہیں

آپ کو زندگی جینے کا کوئی حق نہیں اس لیے وقت نکال کر مرجائیں۔

 

سید ضمیر جعفری نے اسی بارے میں لکھا تھا
مولوی اُونٹ پہ جائے ہمیں منظور مگر
مولوی کار چلائے ہمیں منظور نہیں
وہ نمازیں تو پڑھائے ہمیں منظور مگر
پارلیمنٹ میں آئے ہمیں منظور نہیں
حلوہ خیرات کا کھائے تو ہمارا جی خوش
حلوہ خود گھر میں پکائے ہمیں منظور نہیں

ہمارے یہاں علما، دینی تعلیم حاصل کرنے والوں یا دینی رحجان رکھنے والوں کو دقیانوسیت کا شکار سمجھا جاتا ہے ۔
 یعنی

اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو
 جو مے و نغمہ کو اندوہ ربا کہتے ہیں

(مرزا غالب)
لیکن حیرت کی بات یہ ہے ان مبینہ دقیانوسیت کے شکار لوگوں کو ان مخصوص حدود و قیود کا پابند وہی لوگ کرتے ہیں جو انہیں دقیانوسیت کا طعنہ بھی دیتے ہیں۔