مولانا ظفر علی خان اور لالہ لال چند
اشنان کرنے گھر سے چلے لالہ لال چند
اور آگے آگے لالہ کے اُن کی بہو گئی
پوچھا جو مَیں نے لالہ، للائن کہاں گئیں؟
نیچی نظر سے کہنے لگے وہ بھی چُو گئی
مَیں نے دیا جواب انہیں از رہِ مذاق
کیا وہ بھی کوئی چھت تھی جو بارش سے چُو گئی؟
کہنے لگے کہ آپ بھی ہیں مسخرے عجیب
اب تک بھی آپ سے نہ تمسخر کی خُو گئی
چُو ہوشیار پور میں ندّؔی سے ہے مراد
بی بی تمیز بھی وہاں کرنے وضو گئی
میں نے کہا کہ چُو سے اگر ہے مراد جُو
پھر یوں کہو کہ تا بہ لبِ آب جُو گئی
اینٹھے ہوئے ہیں ماش کے آٹے کی طرح آپ
دھوتی سے آپ کی نہیں ہلدی کی بُو گئی
لطفِ زباں سے کیا ہو سروکار آپ کو
دامن کو آپ کے نہیں تہذیب چھو گئی
ہندی نے آ کے "جیم "کو "چے" سے بدل دیا
چُو آئی کوہسار سے گلشن سے جُو گئی
لہجہ ہوا درشت، زباں ہوگئی کرخت
لطفِ کلام و شستگئ ِگفتگو گئی
معنی کو ہے گلہ ،کہ ہُوا بے حجاب مَیں
شکوہ ہے لفظ کو ،کہ مِری آبرو گئی
افسوس ملک میں نہ رہی فارسی کی قدر
مستی اُڑی شراب سے، پھولوں کی بُو گئی