محمد علوی (سنو تو سارے منظر بولتے ہیں)

ہمارے عہد کو علما اور مفکرین کئی ناموں سے یاد کرتے ہیں۔ کوئی اسے اضطراب کا عہد کہتا ہے، کوئی تمنا کا، کوئی بحران کا، کسی کے نزدیک یہ تغیرنو کا عہد ہے، کسی کے لئے جذبات کے فقدان کا، کسی کے لئے تجزیے کا اور کسی کے لئے عدم تعقل کا۔ الگ الگ سمتوں میں جاتے ہوئے ایک دوسرے کو کاٹتے ہوئے یہ شناس نامے کم از کم ایک بات ثابت کر دیتے ہیں کہ یہ عہد متضاد اور باہم متصادم سچائیوں کا عہد ہے۔ شاید اسی لئے ایچ جی ویلز کے مستقبل بعید کے فرضی مؤرخ نے بیسویں صدی کو پریشان خیالی کے عہد سے تعبیر کیا تھا۔


کسی ایک ذہنی یا جذباتی منطقے سے ہم آغوش گروہ کے لئے یہ پریشان خیالی صرف اس کے محبوب منطقے سے دوری کا نتیجہ ہوگی اوروہ یہ سوچنے میں حق بجانب ہوگا کہ ایک مسئلہ جس کا بنا بنایا حل سامنے موجود ہے، اس کی بابت یہ تشویش کیوں؟ لیکن اس نوع کی خوش عقیدگی کتنوں کا مقدر ہوتی ہے؟ عام طور پر یہی دیکھا جاتا ہے کہ افکار، رویوں اور معتقدات کی کثرت نے زندہ رہنے کے تمام اسالیب کو صدمے پہنچائے ہیں۔ نتیجتاً اس عہد کے بیشتر لوگوں کا نظام اعصاب بگڑ کر رہ گیا ہے۔ شعلوں کی طرح سفاک اور تندخو اور جلتی ہوئی آنکھیں، یا راکھ کی مانند بجھی بجھی آنکھیں، شکنوں سے بھری پیشانیاں یا بے تحریر تختی جیسی سپاٹ اور ایک حرف منتظر کی طلب گار پیشانیاں، اضطراب اور آرزومند کی ایک پیچیدہ کہانی سناتی ہیں۔


اس عالم میں دس میں سے نو شاعر اور ادیب یا تو حواس باختہ، شکستہ و افسردہ نظر آئےگا، یا مشتعل، محرور اور کمان کی طرح تنا ہوا۔ یہ سب اعصابی اور جذباتی تناؤ چاہے جتنی بڑی سچائی ہو لیکن یہ بات طے ہے کہ اسے بے قابو چھوڑ دیا جائے تو ادب تخلیق کرنے والے کے لئے بڑی کٹھن آزمائش پیدا ہو جاتی ہے۔ ہمارے عہد کے حسی اور جذباتی اسالیب میں ایک اسلوب اداسی کا ہے۔ ایک احتجاج اور غصے کا اور ایک بہت پرفریب کھلنڈرے پن کا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان میں کسی بھی اسلوب کو اختیار کرتے وقت اس احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹ جائے جس کے بغیر اداسی لجلجی رومانیت بن جاتی ہے، غصہ گالی بن جاتاہے اور کھلنڈرا پن نہایت سطحی قسم کی مسخرگی۔


محمد علوی بیک وقت کئی اسالیب کا شاعر ہے۔ اس کی پہچان میں عام طور پر غلطی اس لئے ہوئی ہے کہ شعر کی تنقید میں کسی ایک رنگ یا عنصر کو بنیاد بناکر اس کی روشنی میں فیصلے کرنے کا چلن بہت عام رہا ہے۔ یہ بات عام طور پر کہی جاتی ہے کہ محمد علوی شعر کچھ ایسے بے ساختہ انداز میں کہتا ہے گویا شعر کہنا نہ ہوا بائیں ہاتھ کا کھیل ہو گیا۔ اس کے یہاں کوئی گہری فلسفیانہ سوچ نہیں، حجاب نہیں، پیچیدگی نہیں اور اس نے اظہار کا جو راستہ منتحب کیا ہے، اس پر کسی قسم کی دھندیا نقاب نہیں۔ بظاہر یہ بات کچھ ایسی غلط بھی نہیں معلوم ہوتی کہ علوی کی شاعری اور اس کی شاعری سے جھانکتا ہوا چہرا ہر نوع کے پوز سے یکسر عاری ہے۔ لیکن یہ برجستگی یا برہنگی دراصل ایک ایسی گہری اور پیچ دار حسی مساوات اور تجربے کے ادراک نیز اس کے اظہار کے سلسلے میں ایک ایسی خلاقانہ بے خوفی کی زائیدہ ہے جس سے ہمارے بیشتر شاعر اور ادیب محروم رہے ہیں۔ اس نے اپنے سامنے نہ تجربے کی کوئی حد متعین کی ہے، نہ اس تجربے میں اظہار کی۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ محمد علوی ہر سچے شاعر کی طرح اپنے ابتدائی تجربے میں اظہار کی جہت کو اس طور پر مدغم کر دیتا ہے کہ اس سے تجربے کی ایک نئی ہیئت ابھرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے اشعار اس عہد کے عام تخلیقی تجربوں کا ایک حصہ ہونے کے باوجود ردعمل کے عام زاویوں اور افکار کے ہجوم میں گم نہیں ہوتے۔


محمد علوی کی شعری سرشت پر غالب کی وہ بات صادق آتی ہے جو انہوں نے سہل ممتنع کے باب میں کہی تھی، یعنی بظاہر بہت سہل، سادہ اور آسان لیکن بباطن اس درجہ پیچیدہ، دشوار طلب اور انوکھی کہ اس پرکمنڈ ڈالنے کی جستجو میں آنکھ کاتل لہو کی دھار بن جائے۔ محمد علوی شعر اس طرح نہیں کہتا جیسے عمارتیں تعمیر کی جاتی ہیں یا رنگوں کے تناسب میں کسی نادیدہ منظر کی تشکیل کی جاتی ہے، وہ تو اپنے تجربات کے بے کنار صحراؤں میں چھلانگیں لگاتا ہے، پھران نقطوں کی ترتیب سے جہاں اس کے قدم پڑے تھے ایک ایسی انوکھی تصویر خلق کر دیتا ہے جس کے اکثر اجزا اور عناصر عام لوگوں کے لئے انتہائی غیر متوقع سچائیوں کے خبرنامے بن جاتے ہیں۔ معیار کا نظم و ضبط، ڈسپلن یا باقاعدگی اس کے مزاج سے میل نہیں کھاتی۔ اس کی نگاہ ایک آن میں منظر کے اس موڑ تک پہنچ جاتی ہے جس میں اسے اپنے سینے میں چھپے ہوئے اور نمود کی تمنا سے بیتاب منظر کا عکس نظر آ جاتا ہے۔


یہی وجہ ہے کہ محمد علوی کے اشعار پڑھتے وقت یا اس کے بے تصنع، نخوت و ناز اور عجز و انکسار سے بیک وقت عاری لب و لہجے میں خود اسی سے اس کے اشعار سنتے وقت مجھے بار بار ایک حیرت کدے سے دو چار ہونے کا تجربہ ہوا ہے۔ وہ اپنے قاری یا سامع کو نچلانہیں بیٹھنے دیتا، نہ اسے صبر سکون کے ساتھ اپنے شعر سننے اور پڑھنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس کے الفاظ اور مصرعے سادگی اور سہولیت کی ایک مانوس فضا ترتیب دینے کے بعد اچانک ایک برقی رو میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور اس سے پہلے کہ اس کا سامع یا قاری اس غیر متوقع ضرب کی تاب لا سکے، وہ اپنے جمالیاتی سفر کے کسی نئے موڑ پر کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ بظاہر روزمرہ کی باتوں میں دفعتا ًوہ کوئی ایسی بات اس ڈھب سے کہہ جاتاہے کہ ایک سے ایک معجز بیان اور قادرالکلام شاعر اس کا منہ تکتا رہ جاتا ہے اور اس وقت یہ حقیقت روشن ہوتی ہے کہ اس کے تجربے نہ تو کسی عام انسان کے تجربے ہیں، نہ کسی عام شاعر کے۔ اس کے ادراک اور اظہار کا اسلوب بجائے خود ایک ایسی علامت بن جاتاہے جس کے سامنے لفظوں کے مروجہ معانی دم توڑنے لگتے ہیں اور گھسے پٹے تلازمات سراسیمہ دکھائی دیتے ہیں،


دن میں کس کو دیکھا تھا
چاند رات بھر چمکے


سامنے دیوار پر کچھ داغ تھے
غور سے دیکھا تو چہرے ہو گئے


دور تک بیکار سی اک دوپہر
اک پرندہ بے سبب اڑتا ہوا


میرے آگے رات کی دیوار تھی
کوئی دروازہ نہ تھا دیوار میں


اتار پھینکوں بدن سے پھٹی پرانی قمیص
بدن قمیص سے بڑھ کر کٹا پھٹا دیکھوں


فضا میں دور تک اڑتے ہوئے پرندے ہیں
چھپا ہوا میں کہیں ان کے بال وپر میں ہوں


نئے سفر میں بھی دیکھ لینا
پرانے منظر دکھائی دیں گے


اک دیا دیر سے جلتا ہوگا
ساتھ تھوڑی سی ہوا لے جاؤں


روز کہتا ہے ہوا کا جھونکا
’’آتجھے دور اڑا لے جاؤں‘‘


آج پھر مجھ سے کہا دنیا نے
کیا ارادہ ہے، بہالے جاؤں


شعری ادراک کی یہ نوعیتیں، جن کا عکس ان اشعار کے آئینے میں مرتعش دکھائی دیتا ہے، ہمیں کئی سطحوں پر ایک ساتھ متاثر کرتی ہیں۔ ان میں کہیں سنجیدگی ہے، کہیں ایک نیم فلسفیانہ اداسی جو زندگی کے دیرپا اور گہرے تجربوں کے بطن سے نمودار ہوتی ہے، کہیں ایک غم آلود احساس کی ہم رکاب سرمستی ہے، کہیں مظاہر سے والہانہ ربط کا اثر ہے اورٹھوس حقیقتوں کی سر زمین سے پھوٹتا، اچھلتا ہوا تخیل اور اس کی غیر متوقع جست کا منظر۔ ان میں تجربے کا بیان واقعات کے طور پر ہوا ہے اور ان واقعات میں ایسی غیر معمولی ڈرامائی فضا محصور ہو گئی ہے جس سے اکہرے خیالات کی شاعری محروم ہوتی ہے۔


پھر علوی کم سے کم لفظوں میں اپنا اظہار کرتا ہے اور پڑھنے والے پر یہ تاثیر چھوڑ جاتا ہے کہ بات بس اتنی ہی نہیں جو لفظوں میں قید ہو سکی ہے۔ لفظوں، آوازوں، رنگوں اور واردات سے آگے بھی تجربات کے سلسلے پھیلے ہوئے ہیں۔ ان تجربات کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ان کی حزن آثاری کہیں بھی تلخی یا کلبیت یا غصے یا شکست کا تاثر نہیں پیدا ہونے دیتی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ زندگی کی بازی میں ہار جیت یا نفع و ضرر کے احساس سے یکسر بے نیاز کسی ہولناک کہانی کا ایک تنہا کردار اپنے آپ میں گم ایک سے انہماک کے ساتھ اپنے تجربات اور مقدرات کی فصیلیں عبور کر رہا ہے۔ غصے سے قطع نظر، خوف کا عنصر علوی کی شاعری میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کے یہاں یہ اسپورٹس مین شپ، زندگی کے تئیں اس کے بے پناہ خلوص اور اپنی وجودی سچائیوں میں گہرے ایقان کی زائیدہ ہے۔ گردوپیش کی اشیا اور مظاہر کی سچائی بھی انہی سچائیوں میں شامل ہے۔


چاندکی کگرروشن
شب کے بام ودر روشن
اک لکیر بجلی کی
اوررہ گرز روشن
اڑتے پھرتے کچھ جگنو
رات ادھر ادھر روشن
پھول قمقموں جیسے
تتلیوں کے پرروشن
لڑکیوں سے گلیاری
کھڑکیوں سے گھرروشن
اپنے آپ کو یارب
ا ب تو ہم پہ کر روشن
میں درخت اندھا ہوں
دے مجھے ثمر روشن


کیسی تابندہ، طرب ناک اور طلسمی فضا ہے۔ محرومی اور نارسی کی ایک زیریں لہر بھی اس فسوں ساماں احساس کوب وجھل نہیں ہونے دیتی۔ حسن کی ایک کبھی نہ ختم ہونے والی پیاس اس احساس کو ایک انوکھے نشے سے سرشار رکھتی ہے۔ دکھ، سکھ، نشاط محرومی، حیرت اور آگہی کے کیسے کیسے وسائل سے وہ اپنی تکمیل کے سامان فراہم کرتا ہے،


آگ پانی سے ڈرتا ہوا میں ہی تھا
چاند کی سیر کرتا ہوا میں ہی تھا


سر اٹھائے کھڑا تھا پہاڑوں پہ میں
پتی پتی بکھرتا ہوا میں ہی تھا


میں ہی تھا اس طرف زخم کھایا ہوا
اس طرف وار کرتا ہوا میں ہی تھا


جاگ اٹھا تھا صبح موت کی نیند سے
رات آئی تو مرتا ہوا میں ہی تھا


میں ہی تھا منزلوں پر پڑا ہانپتا
راستوں میں ٹھہرتا ہوا میں ہی تھا


مجھ سے پوچھے کوئی ڈوبنے کا مزا
پانیوں میں اترتا ہوا میں ہی تھا


میں ہی تھا علوی کمرے میں سویا ہوا
اور گلی سے گزرتا ہوا میں ہی تھا


یہ میں کہانی کا اکیلا کردار ہونے کے ساتھ ساتھ اس کہانی میں شامل رنگوں، آوازوں، چہروں کی پہچان کا واحد ذریعہ بھی ہے۔ ایک بسیط، ہمہ گیر دائرہ جس میں چھوٹے بڑے تمام دائرے گم ہو گئے ہیں حتی کہ وہ دائرہ بھی جس کے بکھر جانے یا نہ ہونے کا اسے دکھ ہے (تیسری کتاب کا حرف انتساب، خدا کے نام، جس کے نہ ہونے کا مجھے دکھ ہے) اس دکھ کی وساطت سے علوی نے اس دائرے کوبھی ا زسرنو دریافت کر لیا ہے۔ سات آسمانوں سے اوپر، تنہائی کے ملبے میں، آگے بہت آگے اور ہزاروں سال پیچھے وہ جس سمت بھی اپنے آپ پرنگاہ ڈالتا ہے، اس دائرے کی لکیر اسے روشن دکھائی دیتی ہے (پاگل) یہ دائرہ ایک بےکار سی لالٹین سہی، مگر برے وقتوں میں گھڑی دو گھڑی کا سہارا بن جاتی ہے۔ (خدا) تیسری کتاب کی ایک نظم ’میں اور تو‘ میں علوی نے اس دائرے کا ادراک اک نئی سطح پر کیا ہے اور یہاں خدا کے نہ ہونے کے دکھ کا احساس ایک نئی جہت اختیار کر لیتا ہے۔ میں اور تو یعنی انسان اور خدا کے رشتے کا وہ بُعد نظر سے اوجھل ہو گیا ہے جو ’’میں اور تو‘‘ کو بوبرؔ کے لفظوں میں ’’وہ‘‘ بنا دیتا ہے اور اس طرح سچائی کے دو منطقوں کی دوری یا دوئی کو مٹا کر ایک اکائی کو جنم دیتا ہے،


خداوند۔۔۔! مجھ میں کہاں حوصلہ ہے
کہ میں تجھ سے نظریں ملاؤں
تری شان میں کچھ کہوں
تجھے اپنی نظروں سے نیچے گراؤں
خداوند۔۔۔! مجھ میں کہاں حوصلہ ہے
کہ تو
روز اول سے پہلے بھی موجود تھا
آج بھی ہے
اور میں
میری ہستی ہی کیا ہے
آج میں ہوں
کل نہیں ہوں!
یہ سچ ہے مگر
کوئی ایسا نہیں ہے
کہ جو میرے ہونے سے انکار کردے
کسی میں یہ جرأت نہیں ہے
مگر تو
بہت لوگ کہتے ہیں تجھ کو
کہ تو وہم ہے
اور کچھ بھی نہیں ہے


مسئلہ یہ ہے کہ میں یعنی انسان کس طرح اپنے ’’تو‘‘ یعنی خدا تک اس طرح جائے کہ اس کی دنیوی ذات اس سے کلیۃ ہم آہنگ ہو جائے۔ بوبر کا خیال ہے کہ انسان کی پوری تاریخ، میں اور تو کی تفریق کے سبب رونما ہونے والے مسئلے کا افسانہ ہے۔ ’’وہ‘‘ کی دنیا زماں اور مکاں کے سیاق سباق (سے؟) موجود اور مرتب ہوتی ہے۔ یہی دنیا وجود کا آئینہ خانہ ہے لیکن اس کی تشکیل کا عمل اسی صورت میں تکمیل کے نقطے تک پہنچ سکتا ہے جب تو اور میں کے بیچ کی دوریاں مٹ جائیں۔ چوں کہ خدا یعنی تو کی دنیا زماں اور مکاں دونوں سے ارفع تر ہے، اس لئے میں اور تو کا اتصال وہ کو زماں میں رہتے ہوئے بھی اس سے آزاد کر دیتا ہے۔ وہ جو فناپذیر بھی ہے اور لازوال بھی، جو زیر آسماں بھی ہے اور آسمانوں پر محیط بھی۔


بوبر نے خدا سے رشتے میں غیر مشروط ربط اور غیر مشروط علاحدگی دونوں کو ایک ہی حقیقت کا عکس قرار دیا ہے۔ یہ رشتہ انسان کو دوسرے تمام ایسے مظاہر سے لاتعلق کر دیتا ہے جو اس سے الگ ہوں۔ ہر مظہر انسان کی کلیت میں ضم ہو جاتا ہے، صرف اسی سے منسوب و مربوط۔ کائنات کی ہر سچائی، ہر رنگ اور روشنی اور تاریکی کی ہر لہر اس کے وجود کا حصہ بن جاتی ہے۔ محمد علوی کے یہاں اس مسئلے کی نوعیت نہ تو فلسفیانہ ہے نہ متصوفانہ۔ اسے اس فریب کا سہارا بھی حاصل نہیں کہ وہ مخلوقات میں سب سے اشرف اور کائنات ارضی و سماوی کا خلاصہ ہے۔ وہ اپنی مجبوریوں اور نارسائیوں سے آگاہ ہے۔ اس کا اضمحلال اسی آگہی کا عطیہ ہے۔ اپنے دکھوں کے حوالے سے وہ اپنی دائم قائم تشنگی کی اور اس طرح اپنی پہچان کرتاہے اور زمین وزماں کے مختلف ابعاد کے راستے تلاش کرتا ہے کہ اس دکھ کو سہہ سکے۔


یہی وجہ ہے کہ محمد علوی کے یہاں اپنے اور اردگرد کے مظاہر کے نامکمل ہونے کا احساس ایک آسیب کی صورت ہر لمحہ اس پر مسلط دکھائی دیتا ہے۔ ہر موجود سچائی اس کے یہاں وجود پذیر بھی ہے، پس ناتمام بھی ہے۔ دعا، مگر میں خدا سے کہوں گا اور اب جدھر بھی جاتے ہیں، ایسی کئی نظموں اور اشعار میں یہی تشنگی لفظوں کے روزن سے جھانکتی دکھائی دیتی ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو اس کے تمام استعارے اپنی تمازمات کھو بیٹھتے اور خالی خولی لفظ بن جاتے۔ وہ جس خودکار وفور کے ساتھ کم سے کم لفظوں میں اپنے تجربے کو مقید کرنے کے جتن کرتا ہے، اس سے بیشتر پڑھنے والے اس دھوکے میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں کہ ٹھوس حوالوں کی کثرت میں اس کا تجربہ اپنے تمام امکانات کے ساتھ گھر کر جاتا ہے۔ لیکن یہ بہت بڑی سادہ لوحی ہے۔ ایسا ہوتا تو محمد علوی کی تیسری کتاب، اردو کی تیسری کتاب بن کر رہ جاتی اور سچائیاں صرف سچائیوں کی سطح میں لپٹی رہ جاتیں۔ کہانیوں جیسی دلچسپی اور پراسرار نہ رہ جاتیں۔


وہ دوپہر کا دھوپ میں نہایا ہوا منظر دیکھ رہا ہو یا بھورے نیلے آسمانوں میں تیرتے ہوئے طیارے پرگرم پرواز ایئرہوسٹیس کو، اس کا مقصد صرف واقعے یا صورت حال کا بیان نہیں ہوتا۔ ہر واقعے میں اسے کسی نہ کسی کہانی کا بھید مل جاتاہے، جہاں زمانی اور مکانی حد بندیاں ختم ہو جاتی ہیں اور تجربہ دکھائی دینے والی آنکھوں کے دائرے سے نکل کر اس آنکھ کاہم سفر بن جاتاہے جس کے تل میں تخیل اَن دیکھے جہانوں کے منظر سمیٹ لاتا ہے اور جوسب کچھ دیکھتی ہے لیکن کسی کو دکھائی نہیں دیتی۔ یہ مشاہدے کی ایک نئی سمت ہے جو جانی پہچانی صورتوں کو حیرتوں کا نگارخانہ بنا دیتی ہے۔ وہ فسادات پر شعر کہتا ہے تو اس طرح کہ فسادات سے وابستہ واقعات کے بجائے اپنے حسی، جذباتی اور جمالیاتی ردعمل کی ایک کہانی چھیڑ دیتا ہے۔ جنوب کے ساحلوں پر آنے والا مہیب طوفان ایک ایسی بستی کا شور بن جاتا ہے جو اس کے باطن میں آباد تھی،


نیا ہی منظر دکھائی دے گا
اگریہ منظر ہٹا کے دیکھیں


رات کے چنگل میں جب بھی
مجھ کو تنہا پاتا ہے


سناٹا دھیرے دھیرے
اپنے پر پھیلاتا ہے


دن بھر کا بھوکا چیتا
لپک کے مجھ پر آتا ہے


چیخ بہت سی چیخوں میں
جنگل ڈوبتا جاتاہے


کمرے کی دیوار توڑ کر مرے سامنے آیا تھا
اپنا سینہ چیر کے مجھ کو اپنا خون پلایا تھا
چمگادڑ سا اڑا کھلی کھڑکی سے باہر پہنچا تھا
آنکھ سے اوجھل ہوا نہیں اور میرے اندر پہنچا تھا


اب میں ا س کا نوکر ہوں اس کا ہر حکم بجاتا ہوں
اس کے لئے روز رات کو خون چوس کر لاتا ہوں


دل کے ملبے میں دبا ہے اور چلاتا نہیں
ڈوبتا ہے اور چپ ہے چشم تر میں کون ہے
کون اپنا گھر اٹھائے پھر رہا ہے دربدر
گھر میں بیٹھا ہے مگر ہر دم سفر میں کون ہے


کیسی انوکھی عجائبات سے بھری اور بھانت بھانت کے رنگوں سے معمور دنیا ہے۔ مانوس استعاروں یا مانوس لفظوں کی بنیاد پریہ کہنا کہ علوی کے یہاں جو کچھ بھی ہے انتہائی سادہ، جانا بوجھا اور مانوس ہے، ایک ایسی بھول ہے جس کا ادب پڑھنے والوں کے ذہن میں گزر ہونا بھی ایک طرح کی بد توفیقی ہے۔ شاعر لفظ کا موجد نہیں ہوتا، زبان کا خالق ہوتا ہے اور تخلیق کایہ کاروبار برتی ہوئی باتوں اور لفظوں کو ایک نئی سطح پر برتنے کا تقاضا کرتا ہے،


ابھی روشنی میں ذرا جان تھی
اچانک اندھیرا گرا دور تک


اکیلا میں تھا کنارے پر اور سمندر میں
ادھر ادھر سے اترتا ہوا سا منظر تھا


صدیوں سے کنارے پہ کھڑا سوکھ رہا ہے
اس شہر کو دریا میں گرا دینا چاہئے


کتاب کھولوں تو حرفوں میں کھلبلی مچ جائے
قلم اٹھاؤں تو کاغذ کو پھیلتا دیکھوں


لڑھک کے میری طرف آ رہا تھا اک پتھر
پھر ایک اور پھراک اور بڑا سا پتھر تھا


پرندے درختوں پہ گرنے لگے
گرا شام کا سارا منظر گرا


مہینے وہی دوڑتے بھاگتے
وہی سال صدیاں بناتے ہوئے


متحرک، دوڑتے بھاگتے، بڑھتے پھیلتے، غرض کہ اپنی تکمیل کی جدوجہد میں مصروف منظروں کو بظاہر ساکت، متعین اور منجمد لفظوں میں اس طرح گھیرنے کی کوشش کہ لفظ بھی ایک حیرت زدہ مشاہدے کے پروں پر پرواز کرنے لگ جائیں، بظاہر سادہ کاری ہے لیکن اصلاً ایک انتہائی پیچیدہ اور دشوار عمل۔ علوی چونکہ ماتھے پر سلوٹیں اور اعصاب میں تناؤ پیدا کئے بغیر ان سارے تجربوں کو جھیلتا ہے، اس کے پڑھنے والے مسلسل دھوکا کھاتے رہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس میں اصل نقصان اس کے ہوش مندقاری کا ہوتا ہے۔ علوی نے یہ فکر اپنی جان کونہیں لگنے دی کہ بظاہر وہ جتنا کھلنڈر ا اور معصوم دکھائی دیتا ہے، فی الحقیقت اتناہی متین اور گہرا بھی ہے۔