محبتوں کو بھی وعدوں میں رکھ دیا گیا ہے

محبتوں کو بھی وعدوں میں رکھ دیا گیا ہے
کہ جیسے پھول کتابوں میں رکھ دیا گیا ہے


چراغ گھر کی منڈیروں پہ رکھ دئے گئے ہیں
اور انتظار چراغوں میں رکھ دیا گیا ہے


کبھی جو یاد پرانی سجی تھی کمرے میں
اسے بھی اب تو درازوں میں رکھ دیا گیا ہے


صدائیں سرد ہواؤں کو سونپ دی گئی تھیں
پھر اس ہوا کو دریچوں میں رکھ دیا گیا ہے


میں اک گماں تھی فسانے میں ڈھل گئی آخر
وہ ایک خواب تھا آنکھوں میں رکھ دیا گیا ہے