محبت وہ ہے جس میں کچھ کسی سے ہو نہیں سکتا

محبت وہ ہے جس میں کچھ کسی سے ہو نہیں سکتا
جو ہو سکتا ہے وہ بھی آدمی سے ہو نہیں سکتا


یہ کہنا ہے تو کیا کہنا کہ کہتے کہتے رک جانا
بیان حسرت دل بھی تو جی سے ہو نہیں سکتا


اچٹتی سی نگاہیں کب جگر کے پار ہوتی ہیں
کرو خوں دوست بن کر دشمنی سے ہو نہیں سکتا


ہمیں کیوں دل دیا اور دل ربائی ان میں کیوں رکھی
خدا دشمن بتوں کی بندگی سے ہو نہیں سکتا


دم رخصت وہ مجھ کو دیکھ کر بے خود تو کیا ہوگا
نہ اٹھنے دیں انہیں یہ بھی غشی سے ہو نہیں سکتا


برنگ نالہ کس کس دھوم سے اڑتا ہے رنگ اپنا
تری فرقت کا پردہ خامشی سے ہو نہیں سکتا


قلقؔ پیغام تیرا اور بیاں پھر اس ستم گر سے
کسی سے ہو نہیں سکتا کسی سے ہو نہیں سکتا