محبت
نظر کے تیر سے اک درد سا اٹھتا ہے سینہ میں
پھر اس کے بعد سے ہی سب کا جی لگتا ہے جینے میں
یہ ایسا درد ہے جو دن بہ دن بڑھتا ہی جاتا ہے
چڑھے دریا محبت کا تو بس چڑھتا ہی جاتا ہے
محبت جس میں رہتی ہے وہ من میلا نہیں ہوتا
کہ جیسے چاندنی چھو لے تو تن میلا نہیں ہوتا
اسی خوشبو کو لے کے رات کی رانی مہکتی ہے
محبت چوم لے جس کو وہ پیشانی مہکتی ہے
یہ ہندو ہے نہ مسلم ہے محبت سکھ نہ عیسائی
جدھر سے جب بھی یہ گزری تو ہر گھر میں بہار آئی
جہاں میں سب سے اونچا اک محبت کا شوالہ ہے
جہاں دیکھو جدھر دیکھو اسی کا بول بالا ہے
محبت کا یہ پہلو بھی ذرا سا غور فرمائیں
اگر عنوان اچھا ہو تو ہم کچھ اور فرمائیں
محبت ہے مبارک باد کے لائق تو آخر کیوں
جو سچی بات ہے اس کو زباں کہنے سے قاصر کیوں
مگر یہ بات بھی محبوب کے لہجے میں بھاتی ہے
مجھے تم سے محبت ہے یہ کہتے شرم آتی ہے
سمنؔ اس درد کو انعام یزدانی سمجھتی ہے
اور اس احساس کو احساس لا ثانی سمجھتی ہے