محبت کی جس کو خماری لگے
محبت کی جس کو خماری لگے
بیاہی بھی اس کو کنواری لگے
ہوئی عمر ستر بہتر مگر
غرارے میں گوٹا کناری لگے
حقیقت تو یہ ہے کہ باد سموم
جوانی میں باد بہاری لگے
جو بیٹھا ہے بگلا بھگت کی طرح
وہی ہم کو اصلی شکاری لگے
جو کھیلا ہلاکو نے چنگیز نے
وہ کھیل اب بھی دنیا میں جاری لگے
ادب میں بھی جاری خرید و فروخت
جسے دیکھو وہ بیوپاری لگے
سیاست میں ایسی اچھل کود ہے
کہ ہر ایک نیتا مداری لگے
یہ غربت یہ فاقوں کا اک سلسلہ
ہمیں تو یہ روزہ ہزاری لگے
ہماری رعونت بھی کیا چیز ہے
کہ یاروں کو وہ خاکساری لگے
جو سمجھے محبت کو اک چاکلیٹ
یقیناً ہوس کا چساری لگے
نبھاؤں گا پکڑا ہے جب اس کا ہاتھ
کھٹارا لگے یا کھٹاری لگے
لگیں زہر ہم کو ظفرؔ والدین
مگر اپنی دلہن دلاری لگے