محبت کا کسی کے دل میں اک ارمان پیدا کر
محبت کا کسی کے دل میں اک ارمان پیدا کر
خدایا اس سے ملنے کا کوئی سامان پیدا کر
جو انگلستان کی سی برتری اے ہند چاہے تو
ملا کر اپنے فرقوں کو یہ عز و شان پیدا کر
ترے نالوں سے ڈر کر چھوڑ دے صیاد نا ممکن
مگر ہاں دیدۂ تر سے کوئی طوفان پیدا کر
مصائب سے قفس کے طاقت پرواز کب تجھ کو
تو پہلے اپنے اڑنے کا کوئی سامان پیدا کر
بتوں کی یاد میں سودائے سر سے پاک ہو جاؤں
نشہ ایسا مرے سر میں مئے عرفان پیدا کر
وہ بھولے پن سے دے دے بوسۂ لعل لب شیریں
کوئی ترکیب ایسی اے دل نادان پیدا کر
رموز عاشقی تو ساتویں منزل ہے درماں کی
ابھی تو ابجد معنی سے تو پہچان پیدا کر
بلندی اور پستی کی ہمیں کیا تو سناتا ہے
کسی سے تو بھی اے ناصح ذرا ایمان پیدا کر
سنے نالہ اگر میرا نہ ہرگز جور پھر ڈھائے
الٰہی اب تو پیر آسماں کے کان پیدا کر
ابھی تو پہلی منزل ہے رہ مقصود کی شیداؔ
سنبھل کر چل ذرا ہشیار ہو اوسان پیدا کر