محبت جاگ اٹھی رگ رگ میں ارمانوں کو نیند آئی

محبت جاگ اٹھی رگ رگ میں ارمانوں کو نیند آئی
حقیقت نے نقاب الٹی تو افسانوں کو نیند آئی


چھلکتی ہی رہی مے دور چلتا ہی رہا لیکن
رکی گردش ان آنکھوں کی تو پیمانوں کو نیند آئی


بچھے تھے پھول بھی ہر موڑ پر فصل بہاراں میں
مگر آئی تو کانٹوں پر ہی دیوانوں کو نیند آئی


سر محفل رہا اک رت جگے کا سا سماں شب بھر
پلک جھپکی نہ شمعوں کی نہ پروانوں کو نیند آئی


تجلی تھی نہ تابانی تصور تھا نہ پرتو تھا
ترے جاتے ہی سارے آئینہ خانوں کو نیند آئی


محبت تھی فروزاں درد کا احساس تھا جب تک
ہوئی انسانیت رخصت تو انسانوں کو نیند آئی


شب ہجراں کا سناٹا ہے طاری بند ہیں آنکھیں
یہ موت آئی کہ تیرے سوختہ جانوں کو نیند آئی


مسلسل عشق میں عالم رہا شب زندہ داری کا
سر مقتل پہنچ کر تیرے دیوانوں کو نیند آئی


گھنی ہے کس قدر چھاؤں ضیاؔ کفر محبت کی
مگر اس چھاؤں میں کتنے ہی ایمانوں کو نیند آئی